نہیں کیا جاتا اور ختم نبوت کے تمام گرفتار شدگان کو رہا نہیں کیا جاتا۔ وہ فورٹ سنڈیمن میں کسی سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں۔جام صاحب ان گرفتار شدگان کو آہستہ آہستہ آٹھ دنوں میں رہا کرنا چاہتے تھے اور ضمانتیں بھی طلب کرتے تھے۔ یہ شرائط ناقابل قبول تھیں۔ بالآخر ان سات حضرات نے فیصلہ دیا کہ جب تک اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہو۔ وہ فورٹ سنڈیمن فون کرنے پر تیار نہیں۔ چنانچہ جام صاحب نے اپنے ان مہمانوں کو وزیر اعلیٰ ہائوس سے جیل بھجوا دیا۔
مرزائیوں کا انخلاء
بات یہ تھی کہ اگلے روز ۲۰؍جولائی کو جمعہ تھا اور صوبائی حکومت شدید ردعمل کے اندیشوں میں مبتلا تھی اور مذاکرات کا یہ سلسلہ اسی خوف کے پیش نظر تھا۔ مجلس عمل کی دانشمندی سے بیس جولائی کا جمعہ پرامن گزرا۔ ادھر فورٹ سنڈیمن میں حکومت نے معتبر ملکوں اور شہریوں کے ذریعے مجلس عمل سے رابطہ پیدا کیا۔ ان میں کلی اپوزئی کے ملک عصمت اﷲ، ملک دین محمد شیرانی، حاجی سفر خان اور دوسرے سولہ افراد شامل تھے۔ ان انیس حضرات نے جامع مسجد میں عوام کے سامنے یہ اقرار کیا کہ وہ ۲۵؍جولائی سے مرزائیوں کے انخلاء اور ختم نبوت کے قیدیوں کی واپسی کے ذمہ دار ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو وہ دس ہزار روپے فی کس یعنی ایک لاکھ نوے ہزار روپے مجلس عمل کو ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔ حکومت نے ۲۱؍جولائی کی صبح مرزائیوں کو ایک بس کے ذریعے کوئٹہ روانہ کیا جس کی صورت یہ تھی کہ بس کی اگلی نشست پر عوام کی طرف سے حاجی سفر خان بطور یرغمال بیٹھے تھے اور بس کے آگے پیچھے بھاری اور ہلکے خود کار آتشین ہتھیاروں سے مسلح فورسزکے ٹرکوں پر سوار دستے تھے۔
قید سے رہائی
۲۲؍جولائی کی صبح کو کوئٹہ جیل میں بند سات افراد کو رہا کردیا گیا۔ حکومت چاہتی تھی یہ حضرات فوری طورپر روانہ ہوجائیں تاکہ کہیں کوئٹہ میں مرزائیوں کے خلاف تحریک شروع نہ ہوجائے۔ ان سات حضرات کو مچھ جیل کے قیدیوں کا انتظار تھا۔ جیسے ہی وہ پہنچے۔ حکومتی ذرائع انہیں ٹرکوں پر سوار کرکے فورٹ سنڈیمن روانہ ہوگئے۔ اب فرق صرف اتنا تھا کہ مسلح نگرانوں کی تعداد نسبتاً کم تھی اور بزرگ علماء ٹرکوں کی فرنٹ سیٹوں پر بٹھایا ہوا تھا۔
۲۴؍جولائی کی صبح فورٹ سنڈیمن رہائی کی اطلاع مل چکی تھی۔ چنانچہ بہت سے لوگ