ثابت ہے۔ حضرت استاذی مفتی محمد شفیع صاحب سابق مدرس ومفتی دارالعلوم دیوبند اپنی تالیف ’’ختم نبوت فی القرآن‘‘ میں یہ ۱۰۲ آیات قرآنیہ پیش کر کے تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اگر پورے غوروتفتیش سے کام لیا جائے تو جس قدر آیات اس وقت پیش کی گئی ہیں ان سے بہت زیادہ آیات جمع ہوسکتی ہیں۔ لیکن احقر نے استیعاب کا قصد نہیں کیا۔‘‘
اسی طرح ’’ختم نبوت فی الحدیث‘‘ میں ۲۱۰ احادیث صحیح نقل کرتے ہوئے صفحہ اوّل پر لکھتے ہیں: ’’احادیث نبویہ کا غیرمحصور دفتر جو اس مسئلہ میں منقول ہے اس کا استیعاب تو نہایت دشوار بلکہ اس وقت تو عادۃ غیر ممکن ہے۔ لیکن اس میں سے جس قدر حصہ اس تھوڑے وقت میں اور کتب احادیث کے مختصر ذخیرہ میں ناقص تتبع کے ساتھ سامنے آیا ہے اس کو حوالہ قلم کیا جاتا ہے۔ پھر کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ کے بعد دین کا یہ بنیادی اور جوہری مسئلہ اجماع امت کی سند بھی اپنے ثبوت میں رکھتا ہے۔‘‘
حضرت مفتی صاحب ممدوح نے ’’ختم النبوۃ فی الآثار‘‘ میں حضرت صدیق اکبرؓ، فاروق اعظمؓ اور حضرت علیؓ سے لے کر حضرت ابوقبیلہؓ تک اسی۸۰ اجلہ صحابہ کرامؓ اور امام المحدثین امام بخاری، امام مسلم سے لے کر حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ تک (۶۸) اڑسٹھ محدثین عظام اور امام التفسیر والحدیث امام طبریؒ، امام راغب اور امام ابن کثیر سے لے کر حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی وغیرہؒ تک (۲۶) چھبیس مفسرین حضرات اور امام الاحناف ملا علی قاریؒ، امام الشوافعؒ، علامہ ابن حجر مکی، صاحب بحر الرقائق، فتاویٰ عالمگیری وغیرہ دس مشاہیر فقہائ، علامہ تفتازانی، علامہ سیوطی، امام ابن ہمام حجتہ الاسلام، امام غزالی سے حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ تک (۱۸)اٹھارہ اکابر متکلمین اسلام اور امام الاولیا حضرت عبدالقادر جیلانیؒ، مولانا جامیؒ عارف باﷲ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ، امام العارفین حضرت مجدد الف ثانیؒ وغیرہ اعاظم صوفیائے امت کے اسمائے گرامی اور بطور نمونہ بعض حضرات کے ارشادات ومقالات پیش کئے ہیں جن سے روز روشن سے زیادہ ثابت ہوجاتا ہے کہ امت کے ہر طبقہ کے اکابر وعمائد کا اس مسئلہ پر ہمیشہ اجماع رہا ہے اور ختم نبوت کا منکر بالاجماع کافر، مرتد اور واجب القتل ہے۔
سابق انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کی شہادت
پھر اس خیر امت کی اجماعی شہادت پر بس نہیں بلکہ اس مسئلہ عظیم پر کتب قدیمہ، تورات وانجیل وغیرہ سے انبیاء سابقین علیہم السلام اور ان کی امتوں کی پندرہ شہادتیں مع حوالہ ’’ختم النبوۃ فی الآثار‘‘ ص۲۳تا۴۱ پر نقل کی گئی ہیں جن میں سے بطور نمونہ چند ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔