کی بحث چھیڑ کر مختلف حیلوں اور بے جا تاویلوں سے بزعم خویش یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔ اور جس مسیح کے آنے کا ذکر ہے وہ مثل مسیح ہے جو مرزا غلام کی صورت میں آگیا اور جو مسیح آئے گا چونکہ وہ نبی ہوگا۔ اس لئے نبوت ختم نہ ہوئی بلکہ جاری رہی۔ لہٰذا قرآن میں حدیث میں جہاں جہاں ختم نبوت کا ذکر ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ آئندہ جو بھی نبی آئے گا۔ آنحضورﷺ کے مہر تصدیق سے آئے گا۔ (استغفراﷲ)
اب میں اس مغالطہ کو دور کرنے کے لئے قارئین کرام کی خدمت میں پہلے قرآن پاک پھر احادیث مقدسہ پیش کرتا ہوں۔ تاکہ ثابت ہوجائے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ اٹھائے گئے۔ وہ قرب قیامت نزول فرمائیں گے۔ اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ شریعت محمدی پر عمل پیرا ہوں گے اور حضور اکرمﷺ کے امتی کہلائیں گے۔ جتنے امور ان کے ذمہ ہوں گے۔ وہ سر انجام دے کر فوت ہوجائیں گے۔ اور روضہ اطہر میں حضورﷺ، شیخین کے پاس دفن ہوں گے۔ نیز ان کی موجودہ حیات اور قرب قیامت تشریف آوری۔ حضور کی ختم نبوت کے قطعاً خلاف نہ ہوگی۔
اب دیکھئے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن پاک کیا ارشاد فرماتا ہے؟
حیات عیسیٰ علیہ السلام
ارشادات قرآن مجید
’’ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر المکرین (ال عمران ۴۵)‘‘ {یعنی یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے اور صلیب پر چڑھانے کی تدبیر کی اور اﷲ تعالیٰ نے بھی ایک تدبیر کی اور اﷲ تعالیٰ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ (حضرت تھانویؒ)}
’’وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم۔ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ۔ مالہم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا۔ بل رفعہ اﷲ الیہ۔ وکان اﷲ عزیزاً حکیماً (نساء ۱۵۸)‘‘{اور اس کہنے پر کہ ہم نے مارا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا، نہ اس کو مارا ہے اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں کئی باتیں نکالتے ہیں۔ وہ اس جگہ شبہ میں پڑے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر مگر اٹکل پر چلنا اور اس کو مارا نہیں بے شک بلکہ اس کو اٹھالیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ زبردست حکمت والا ہے۔ (شاہ عبدالقادر)}