نماندستمگار بد روزگار
یہ وزارت اور یہ ایوان بعض سرکاری افسروں کے ساتھ مل جل کر من مانی رنگ رلیاں مناتے تھے۔ لہٰذا جب تحریک تحفظ ختم نبوت نے ’’راست اقدام‘‘ کا آغاز کیا تو ان ارباب اقتدار نے نہ عوام کے مطالبات مانے، نہ ’’راست اقدام‘‘ کرنے والوں کی پر امن عوامی گرفتاریاں قبول کیں۔ بلکہ پہلے ان پر لاٹھی چلائی۔ پھر گولی چلائی اور آخر میں فوج کو دھاوا بولنے کاحکم دے دیا۔ اس کے بعد ملک میں ارباب غرض نے ایک ایسی صورت پیدا کردی کہ ختم نبوت کا نام لینا قانون شکنی کے ہم معنی قرار پایا۔ عام مجرموں کو ارتکاب جرم سے پہلے ارادہ جرم کی سزا نہیں دی جاتی۔ لیکن ختم نبوت کا عقیدہ بیان کرنا بھی کچھ مدت تک جرم قرار پاگیا تھا۔ جب ملک کے قانون نے پورا ساتھ نہ دیا تو سیفٹی ایکٹ سے کام لیا گیا۔ جو غداران وطن کے خلاف استعمال کرنے کی خاطر بنایا گیا تھا۔ جب سیفٹی ایکٹ سے بھی تسلی نہ ہوئی تو بنگال ریگولیشن سے کام لیا گیا۔ جب اس سے بھی دل ٹھنڈا نہ ہوا تو مجلس دستور سازسات سال میں ملک کا دستور نہ بنا سکی تھی۔ اس نے سات گھنٹے کے اندر ایک انڈمنٹی ایکٹ منظور کردیا۔جس کا سادے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ حاکم وقت جس کو چاہے ختم نبوت کا نام لینے کے جرم میں جیل کے اندر ڈال دے۔ پھانسی کے تختے پر لٹکا دے۔ جائیداد قرق قرق کرلے، جو فریاد کرے اس کو بھی شریک جرم قرار دے کر جو چاہے سزا دے۔
ظاہر ہے کہ اس سختی اور جبر سے دہشت پھیلی۔ جن کے دل میں دہشت نے اثر نہ کیا، ان کے سامنے یہ سوال تھا کہ جب ارباب اقتدار فوج کشی پر آمادہ ہوگئے ہیں تو ان کا مقابلہ کرنے سے ملک کے اندر خانہ جنگی پیدا نہ ہوجائے۔ جو پاکستان ہم نے لاکھوں قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔ اس کا استحکام اور سالمیت خطرے میں نہ پڑ جائے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ہے۔ وہ گہوارہ ہے جس میں پرورش پانے والے انشاء اﷲ العزیز ایک دن دنیا کے اندر اسلامی نظام قائم کرکے ہی دم لیں گے۔ اس لئے عارضی طور پر یہاں ختم نبوت کی تحریک کو کچلنے والے ارباب اختیار سے بھی کھلا تصادم ہمارے مقاصد کے لئے مفید نہ تھا۔
جس قانون کو ہم نے غلط سمجھا اس کا مقابلہ بھی ہم نے قانون کی حد سے آگے بڑھ کر نہ کیا۔ کیونکہ ہم اپنی تلواریں ان دشمنوں کے لئے بچا رکھنا چاہتے ہیں جو صرف ہماری گردنیں ہی