مشترکہ ہے۔ کسی شخص کو حق نہیں کہ وہ سود یا دوسرے ناجائز ذرائع سے خلق خدا کی روزی چھینے۔ بلکہ حکومت الٰہی کا فرض ہے۔ ہر فرد رعایا کو حسب ضرورت روٹی دے۔ اور قرآن کے اصولوں کے مطابق ضرورت سے زیادہ دولت اکٹھی کرکے رکھنے والوں سے وقتاً فوقتاً دولت حاصل کرکے مستحقین اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرتی رہے۔ جس کا نام اسلام نے زکوٰۃ، حقوق ہمسایہ، حقوق یتیم، حقوق بیوگان، حقوق مسافر، حقوق اپاہج، حقوق مساکین، حقوق اخراجات نظام حکومت و تقسیم جائیداد وبذریعہ وراثت رکھا ہے۔ عورتوں کو وراثت ملکیت کا حق ہوگا۔ رضا مندی سے نکاح اور ناچاقی کی صورت میں شوہر سے طلاق حاصل کرسکتی ہے۔ اور خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں بذریعہ قاضی خلع کا حق رکھتی ہے۔
فسق وفجور اور فضول رسومات کا رواج قانوناً بند ہوگا۔ سود کے بغیر مقررہ پابندیوں سے تجارت کرنے کا اور محنت ومزدوری یا زراعت کے لئے ہر شخص کو حق حاصل ہوگا۔ حکومت الٰہی کی فوج یعنی مسلمانوں پر روزانہ پانچ دفعہ جماعت بند ہونا اور ان کے نمائندوں کے لئے ہر سال مرکز اسلام میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنا فرض ہوگا۔
مسلمانو! حکومت الٰہی کے قیام کے لئے اٹھو!
نام کے مسلمانو! سوچو کہ اس دنیا میں بہشت کے نمونہ سے لطف اٹھانے اور دوسری زندگی میں بہشتی زندگی کی عادت حاصل کرنے کے لئے حکومت الٰہی کے قیام سے زیادہ نیک عمل اور کونسا ہوسکتا ہے۔ تم جانتے ہو کہ ریلوں، ہوائی جہازوں، چھاپہ خانوں اور دوسری ایجادات سے تمہارا کام کس قدر آسان ہوگیا ہے۔ اﷲ کا نام لے کر حکومت الٰہی کے قیام کے لئے اٹھو۔ زمانہ پکار پکار کر تمہیں کہہ رہا ہے۔ کہ ؎
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں، خواب گراں ،خواب گراں خیز
ترکان احرار کا پیغام
ترکان احرار صدیوں سے حکومت الٰہی سنبھالنے کے دعویدار چلے آتے ہیں۔ گو حکومت عثمانیہ بھی کلیۃً نظام حکومت الٰہی کے مطابق نہ تھی۔ لیکن ترکوں نے اپنے علماء دین پر بھروسہ کرکے اپنی عقل کے مطابق حکومت عثمانیہ کو ہی حکومت خلافت اسلامیہ سمجھ کر قائم رکھا۔ لیکن آخر کار مسلمانان عالم کے اعمال کی سزا اس رہی سہی خلافت اسلامیہ کو بھی اٹھانی پڑی۔ اور حکومت عثمانیہ