اور قائم رہ سکتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے وضاحت کرچکا ہوں۔ دین کے عام فہم معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ آخری نبیﷺ کی تعلیمات کو زندگی کے ہر مسئلے میں آخری حجت مانا جائے۔ اور ہر زمانے میں جن لوگوں نے اس نبی کی تعلیمات کو زندگی کے ہر مسئلے میں آخری حجت تسلیم کیا ہے۔ ان کی کارگزاری کی روشنی میں نبیﷺ کی تعلیمات کا مفہوم سمجھائے۔ جسے فقہاء کی اصطلاح میں سنت سلف صالحین کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بھی قرآن وسنت کو سارے آئین کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی سالمیت برقرار رکھنے کی خاطر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی نبی پر نازل ہونے والی کتاب اور کسی نبی کی سنت آئین کا سرچشمہ ہے۔
ختم نبوت کے بغیر دو قوم کا نظریہ باقی رہے گا نہ ایک پاکستانی قوم
گویا ختم نبوت صرف فقہ اور عقائد کا مسئلہ نہیں۔ یہ پاکستان کے آئین اور ناموں کا مسئلہ ہے۔ یہ مشرقی پاکستان، کشمیر، سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ کو ایک دوسرے سے پیوست کرنے یا ایک دوسرے سے اکھاڑ کر ریزہ ریزہ کردینے کا مسئلہ ہے۔ صرف یہی نہیں یہ پاکستان کو بھارت سے جدا کرنے یا بھارت کے ساتھ واپس ملحق کردینے کا مسئلہ ہے۔ صرف یہی نہیں یہ ہر پاکستانی خاندان کے اندر نسب اور صلہ رحمی کے رشتے قائم رکھنے یا منقطع کردینے کا مسئلہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بحیثیت ایک مسلمان کے کسی مسلمان کی شخصیت کو قائم رکھنے یا ایک دیوانے کے خواب کی طرح اس کی شخصیت کے مختلف اجزاء کو ایک دوسرے سے برسرپیکار کرکے۔ اس کی اخلاقی اور ذہنی موت وارد کردینے یا توحید سے اس کو بامعنی بنا دینے کا مسئلہ ہے۔
میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یہ کسی شاعری کی مبالغہ آرائی یا کسی واعظ کی محفل آرائی نہیں۔ تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ جس دن سے تحریک تحفظ ختم نبوت کو کچلا گیا ہے۔ اس دن سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین مساوات نمائندگی اور مساوات تقسیم کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ جس پختونستان کو ہم جاہلانہ عصبیت کا نام دیا کرتے تھے۔ وہ ہمارے صدر مملکت اور ایک بیرونی بادشاہ کے مابین موضوع گفت وشنید بن چکا ہے۔ ملک کی ایک کے بجائے دو زبانیں مقرر ہوچکی ہیں۔ جس پنجاب نے پاکستان بنانے کے لئے سب سے زیادہ قربانی دی۔ جس نے سب سے زیادہ مہاجرین کو آباد کیا۔
آج اس کو ساٹھ فی صدی کے بجائے چالیس فی صدی نیابت ملتی ہے۔ اور ادنیٰ ملازمتوں میں یہ تناسب بیس سے لے کر تیس فی صدی تک گرچکا ہے۔ مجھ سے زیادہ صوبائی