تو ایسے انسان کو ایک صحیح الدماغ انسان کہنا بھی جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ پیغمبر کہا جائے۔ ’’محمد عاشق صاحب نائب صدر مجلس احرار کی موت ہیضہ میں ہوئی تھی۔ مرزاقادیانی کو انہوں نے برا بھلا کہا تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی نے فرمایا کہ ان کو بہت خراب موت ہوئی۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۴، نمبر۳،۴؍ اگست ۱۹۳۶ئ)
حالانکہ خود مرزاقادیانی کی موت ہیضہ کے مرض میں ہوئی۔
(رسالہ سیرت مسیح ص۱۴، مصنفہ شیخ یعقوب عرفانی، قادیان)
ختم نبوت اور امت کی ذمہ داریاں
از: مولانا سعید احمد پالنپوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند
الحمدﷲ رب العلمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین وخاتم النبیین وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین۰ اما بعد!
اﷲ رب العالمین کا تعارف، حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرعون لعین کے روبرو اس طرح کرایا ہے: ’’قال ربنا الذی اعطیٰ کل شیٔ خلقہ ثم ہدیٰ (طہ:۵۰)‘‘ {کہا! ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب بناوٹ عطاء فرمائی۔ پھر راہنمائی فرمائی۔}
یعنی کائنات کی ہر چیز کو جیسا ہونا چاہئے تھا پہلے اس کو ویسا ہی بنایا۔ اﷲتعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کے لئے جو شکل وصورت اور جو اوصاف وکمالات مناسب سمجھے عطاء فرمائے۔ پھر اﷲتعالیٰ ہی نے سب کی راہنمائی بھی فرمائی جو مخلوق جس راہنمائی کی محتاج تھی سب کی حاجت روائی فرمائی۔ انسان پیدا کیاگیا تو اس کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ضرورت بقاء تھی۔ چنانچہ اس کی صورتیں اس کو الہام کی گئیں۔ بچے کو ابتدائے پیدائش کے وقت جب کہ اس کو کوئی بات سکھانا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ یہ کس نے سکھایا کہ ماں کی چھاتی سے اپنی غذا حاصل کرے؟ چھاتی کو دبا کر چوسنے کا ہنر اس کو کس نے بتلایا؟ بھوک پیاس، سردی، گرمی کی تکلیف ہو تو روپڑنا اس کی ساری ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ رونا اس کو کس نے سکھایا ہے؟ یہی وہ ہدایت ربانی ہے جو ہر مخلوق کو اس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق غیب سے بغیر کسی کی تعلیم کے عطاء ہوئی ہے۔ اسی طرح اﷲ رب العالمین نے ہر مخلوق کو ایک خاص قسم کا ادراک وشعور بخشا ہے جس کے ذریعہ اس کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ کس کام کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اسے کیا کرنا ہے۔