کہیں کسی زمانے میں بیان کیا تھا اور اس نسخہ کی عطاری کے لئے تو سوائے لندن یا نیویارک کے غیر ملکی ماہرین کے اور کوئی کارآمد ہی نہیں ہوسکتا۔ کسی گائوں میں جائیے، کسی شخص کو یہ سمجھائیے کہ بھئی فلاں فعل نہ کرو۔ یہ بڑا اینٹی سوشل ایکٹ ہے یا فلاں منصوبے کی تائید کرو۔ اس سے جمہوریت کو نشوونما ہوگی۔
کیا سومیں سے ننانوے آدمیوں کی سمجھ میں خاک بھی پلے بڑے گی۔ برعکس اس کے خیبر سے لے کر چٹاگانگ تک کسی شخص کو یہ کہئے کہ بھئی یہ فعل مسلمان کو زیب نہیں دیتا اور فلاں تجویز کی اس لئے تائید کرو کہ کالی کملی والےﷺ نے ایسا ہی کیا تھا تو یہ دوسری بات ہے کہ وہ آپ کی رائے سے متفق ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایسا کون ہوگا جو اس بات کو سمجھ نہ جائے۔ عورتیں اور بچے بھی اس زبان کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
خارجہ پالیسی بھی ختم نبوت کے اصول کی محتاج ہے
۳… تیسرا مسئلہ عالمگیر حکمت عملی اختیار کرنے کا تھا۔ جدید ایجادات نے دنیا کی ایسی کایا پلٹ دی ہے کہ دور دراز کے ملک ایک رشتے میں بندھ گئے ہیں۔ بوڈالپٹ میں بغاوت ہوتی ہے تو کراچی کی سیاست پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ واشنگٹن میں صدر منتخب ہوتا ہے تو بھائی پھیرو کی میونسپلٹی کے عہدے داروں میں تغیر وتبدل کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ جمہوری سرمایہ داری سویزا اور الجزائر کے زخموں پر پھایہ رکھنے میں قاصر ثابت ہورہی ہے اور ’’دنیا بھر کے مزدور متحد ہوجائو‘‘ کا نعرہ لگانے والے ہنگری کے مزدوروں پر گولی چلانے سے باز نہیں رہ سکتے۔ اس کیفیت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسلامی ملکوں سے رشتے مضبوط کئے جائیں۔
لیکن اسلامی ملکوں سے رشتے مضبوط کرنے کا مطلب کچھ عرصے سے یہی سمجھا گیا ہے کہ دو مسلمان ملکوں کے انگریزی بولنے والے اور پتلون پہننے والے لیڈر کسی سینما میں اکٹھے بیٹھ کر کوئی اطالوی فلم دیکھ لیں۔ یا ایک دوسرے کی صحت کے جام نوش کرلیں۔ چاہے ازروئے تقویٰ قلقل ومینا میں سوائے سادہ پانی کے اور کچھ نہ بھرا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی ملاقات کا انتظام واہتمام جس فرنگی لارڈ یا امریکی بینکر کی مدد سے ہوگا۔ اس کے پڑھائے ہوئے میاں مٹھو اپنے استاد کی سکھائی ہوئی ڈرایں چہ شک) سے زیادہ اور کیا بات کرسکیں گے۔ نتیجہ یہی ہوگا کہ ملک فیروز خاں نون صاحب کو اسرائیل کی یہودی حکومت کے قیام کی ابدیت میں کوئی شک باقی نہ رہے گا اور وہ پکار اٹھیں گے۔ کہ پندرہ لاکھ یہودیوں کو سمندر میں تو نہیں دھکیلا جاسکتا۔ وہ یہ بھول جائیں گے کہ