وصداقت کی کتنی مظلومی اور مجبوری ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرا اپنے آپ کو اجالا ظاہر کرے اور کفر وباطل، حق واسلام کا نعرہ لگا کر میدان میں آدھمکے۔ بدی نیکی کہلا کر نیکی کا منہ چڑائے اور شر، خیر کا روپ دھار کر خیر کے مقابلہ میں نکل آئے۔ جب زہر ہلاہل اور ستم قاتل پر آب حیات اور تریاق عراق کا لیبل لگا کر نہ صرف دنیا کو زہر دیا جائے بلکہ آب وتریاق کو چیلنج کیا جائے تو دنیا اور اہل دنیا کی بدنصیبی اور حق وصداقت کی مظلومی کی کوئی حد وانتہاء باقی رہ جاتی ہے؟
ہٹلر، گوئرنگ اور گوبلز اگر جھوٹ کو اس شدت وتکرار کے ساتھ دنیا میں نشر کریں کہ دنیا جھوٹ کو سچ سمجھنے پر مجبور ہو جائے اور چرچل، سٹالن اور ٹرومین اس قدر وثوق واعتماد کے ساتھ کذب ودروغ کی اشاعت کریں کہ دنیا ان کو ٹرومین (سچا آدمی) سمجھنے لگ جائے تو یہ چیز اتنی تعجب خیز اور حیرت انگیز نہیں۔ کیونکہ آج کل کی سیاست کی بنیاد ہی دجل وفریب پر قائم ہے۔ لیکن جب دنیا یہ دیکھتی ہے کہ دینی حدود میں ایک سولہ آنے دشمن خدا ورسول کو عاشق خدا ورسول بنا کر دنیا کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے تو فرط حیرت سے انگشت بدنداں ہوکر رہ جاتی ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی خدا، رسول خدا اور دین خدا سے عداوت وبغاوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سورج کی طرح روشن اور ظاہر حقیقت ہے۔ کوئی عقل کا اندھا شپرہ چشم ہی اس میں شک وشبہ کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مرزاقادیانی کی ذات اقدس کی طرف جب چند بدقسمت اور بدنصیب دنیا کو دعوت دیتے ہیں تو مرزاقادیانی کو سب سے بڑا محب خدا، عاشق رسول اور خادم ومجدد دین بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض سادہ لوح اور بے خبر مسلمان اس دام تزویر وتلبیس میں پھنس کر مرتد ہو جاتے ہیں۔
لاہوری جماعت اور مولوی محمد علی
قادیانی اکابر تو اس بارے میں انسانیت وشرافت کی تمام حدود پھاند چکے ہیں۔ اس لئے وہ مرفوع القلم اور خارج عن البحث ہیں۔ لیکن لاہوری جماعت جو عام طور پر اس سلسلہ میں سنجیدہ اور شریف سمجھی جاتی ہے اس کا بھی یہ حال ہے کہ اس کے مبلغ اس کا پریس، اس کا امیر سبھی ہر وقت اور ہر موقع پر اس قسم کا دلآزار راگ الاپتے رہتے ہیں اور آئے دن ایک دشمن خدا اور عدو رسول کو عاشق خدا اور محبت رسول بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں۔
جماعت کے امیر مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے، ایل۔ایل۔بی کا تویہ حال ہے کہ انہیں مرزاقادیانی کے اسی عشق کے چرچے کا ہیضہ ہوگیا ہے اور ان کا عموماً کوئی خطبہ ایسا نہیں ہوتاجس میں وہ اس قسم کی مسلم آزار روش اختیار نہ کرتے ہوں۔ چند تازہ شواہد ملاحظہ ہوں: