میرامطلب یہ تھا۔ میری غرض یہ تھی۔ حق کے ساتھ آنا کافی ہے۔ فہم وشعور کو منہ چڑانا ہے۔ غلط اور رکیک توجیہات ہیں۔ جنہیں معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی نہیں مان سکتا۔
مرزائیت، عقل سلیم کے لئے چیلنج
ڈاکٹر رشید الوحیدی، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی!
حکیم مطلق نے قرآن پاک میں اپنے رسول کی طرح طرح صفت بیان فرمائی ہے۔ غور کیجئے! تو ہر بیان میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ بعض اسماء وصفات کے ذکر سے جناب باری تعالیٰ نے آنے والے دور میں بڑے بڑے فتنوں کا سدباب فرمادیا ہے۔ تمام اسماء اور تمام صفات کا استقصاء تو مشکل اور تفصیل طلب ہے۔ مثال کے طور پر لفظ ’’عبد‘‘ کو لیجئے۔ اس لفظ سے بہت بڑا مقصد عظیم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے بے مثال، اور انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام کو سامنے رکھتے ہوئے ذہن وعقیدہ کو ٹھگنے، گمراہ ہونے سے محفوظ رکھنے کا بہترین سامان کر دیا ہے۔ پھر قرآن پاک میں متعدد جگہ اس لفظ ’’عبد‘‘ کو اشرف ترین مقام میں ذکر فرما کر اس حفاظت کو اور بھی مستحکم فرمادیا ہے۔ اسراء کے ذکر میں ہے: ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ‘‘ ایک اور جگہ: ’’وانہ لما قام عبداﷲ‘‘ پھر فرمایا: ’’فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ‘‘ اور ’’وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا‘‘ وغیرہ ذالک!
پھر حضرت مسیح علیہ السلام بھی قیامت میں شفاعت کے موقع پر اسی شرف ومجد والے لفظ کواختیار فرمائیں گے۔ ’’اذھبوا الی محمد عبد غفرلہ ما تقدم من ذنبہ وما تاخر‘‘
دوسری صفت قرآن پاک نے یوں بیان فرمائی ہے: ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ کے سلسلے میں ایک بات نوٹ کرنے کی ہے، تمام ہی انبیاء کرام خصوصاً نبی آخرالزمانﷺ کی دعوت کا بنیادی مقصد ایک ذات واحد کی طرف مخلوق کو بلانا تھا۔ مشرکین عرب کو محمد بن عبداﷲ سے کوئی کد نہ تھی۔ ہاں! آپ کی نبوت کے تصور سے ان کو چڑ تھی، اور یہ اس لئے کہ صدیوں سے تین سو ساٹھ بلکہ ہزاروں اور لاکھوں بتوں کو پوجنے والوں کو جب نبی نے ایک ہی معبود کی طرف بلایا اور صرف اسی ایک ذات کو پوجنے کی دعوت دی تو وہ پوری طرح اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ جب تک آپﷺ اس دنیامیں رہے ان کے سینے میں غیض وغضب کا طوفان بھڑکتا رہا۔ طرح طرح کے مظالم اور جنگ کا بازارگرم رکھا، اور آپﷺ کے دنیا سے پردہ پوشی فرماتے ہی انہوں نے براہ راست قصر نبوت پر حملے شروع کر دئیے اور اس طرح کہ بہت سے