اطلاع عام برائے اہل اسلام
از: مولوی صوفی عبدلحق غزنوی مباہل مرزا
اس میں کچھ شک نہیں کہ میں مرزاقادیانی کے مباہلہ کا مدت سے پیاسا ہوں اور تین برس سے اس سے یہی درخواست ہے کہ اپنی کفریات پر جو تونے اپنی کتابوں میں شائع کئے ہیں۔ مجھ سے مباہلہ کر… لہٰذا میں نے یہ خط مسطور الذیل بتاریخ ۷؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ ارسال کیاکہ ہم کو آپ سے مباہلہ بدل وجان منظور ہے۔ مگر تاریخ تبدیل کر دو۔ مرزاقادیانی نے اس کے جواب میں ۷؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ میں خط لکھا کہ میں مباہلے کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ ۱۰؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ کو امرتسر کی عیدگاہ میں دونوں صاحبوں کا مباہلہ ہوا اور دونوں فریق امن وامان سے واپس آگئے۔ لیکن مرزاقادیانی اپنے مباہل مولوی عبدالحق غزنوی کی موجودگی میں ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء مطابق ۲۴؍ربیع الثانی ۱۳۲۶ھء کو فوت ہو گئے اور الحمدﷲ! مولوی عبدالحق صاحب غزنوی مرزاقادیانی کی وفات کے بعد بھی کئی برس زندہ رہے۔
مولانا محمد نذیر حسین دہلوی کا مناظرہ
مولانا سید نذیر حسین صاحب کے شاگرد رشید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی شروع ہی سے مرزاقادیانی کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے۔ مرزاقادیانی نے خود ان کے بجائے ان کے استاذ سے مناظرہ کرنا پسند کیا۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے ایک اشتہار نکالا اور اس میں مناظرہ کی دعوت دی جس میں لکھا کہ مولوی نذیر حسین صاحب سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم کو زندہ سمجھنے میں حق پر ہوں اور قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے اس کی زندگی ثابت کر سکتے ہیں کہ میرے ساتھ بپابندی شرائط مندرجہ اشتہار ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء بالاتفاق بحث کر لیں۔ اگر انہوں نے بقبول شرائط اشتہار ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء بحث کے لئے مستعدی ظاہر نہ کی اور پوچ اور بے اصل بہانوں سے ٹال دیا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کی وفات کو قبول کر لیا۔ چنانچہ حضرت میاں صاحب نے مناظرہ کو قبول کیا۔ میاں صاحب کے متکلم مولوی بشیر احمد صاحب تھے۔ انہوں نے پہلے دن حیات مسیح پر پانچ دلائل حاضرین مجلس کو سنائے اور پھر اس پر دستخط کر کے مرزاقادیانی کو دئیے۔ مرزاقادیانی نے مجلس بحث میں جواب لکھنے سے عذر کیا۔ دوسرے دن بھی جواب نہ پیش کر سکے اور اس طرح مناظرہ سے شکست کھا کر واپس ہوگئے۔ (حوالہ رسالہ الحق الصریح ص۲)