مسلم لیگ اور اسلام
میاں افتخار الدین اور سردار شوکت حیات خان اگر اپنی تقریروں سے مسلم لیگ میں انتشار کا موجب ہوں تو انہیں مسلم لیگ سے خارج کر دیا جاتا ہے۔
مجلس عاملہ پاکستان مسلم لیگ نے ۱۱؍اپریل کو کراچی میں میاں صاحب اور سردار صاحب کو پارٹی سے پانچ پانچ سال کے لئے خارج کرتے ہوئے ان کے خلاف حسب ذیل فرد جرم مرتب کی ہے۔
’’میاں صاحب اور سردار صاحب نے جماعتی نظم وضبط کا خیال کئے بغیر مجلس دستور ساز میں پارٹی میں فیصلوں کے خلاف تقریریں کر کے مسلم لیگ کے مفاد کو نقصان پہنچایا بلکہ انہوں نے پارلیمنٹ میں پاکستان پارلیمنٹ کی حیثیت کو چیلنج کیا۔ انہوں نے پارٹی میں انتشار وبدنظمی پھیلانے کے لئے تخریبی کارروائیاں کیں اور مسلم لیگ کو رسوا کرنے کی کوشش کی۔‘‘
مگر آہ!
مرزاغلام احمد، میاں محمود احمد اور دوسرے مرزائیوں کی اس قسم کی تقریروں سے نہ ملی نظم وضبط کو صدمہ پہنچتا ہے نہ اسلام کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہے۔ نہ دین کی حیثیت کو چیلنج ہوتا ہے۔ نہ اس کی رسوائی ہوتی ہے اور نہ ملت میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں معزز معاصر ’’ڈان‘‘ (اردو) بعنوان ’’پارٹی سے بغاوت کی سزا‘‘ لکھتا ہے: ’’گورنمنٹ اس کے ارکان اور اس کی عام پالیسی پر انہوں نے سخت حملے کئے ہیں۔ انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ دستور یہ پاکستان اور پارلیمنٹ کی نیابتی حیثیت پر بھی اعتراض کیا۔ پاکستان کا کون سا نظام اور ادارہ باقی رہ گیا جس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ ان کی نظر میں اس کا احترام ہے… ان کے اور مسلم لیگ پارٹی کے درمیان کون سی چیز مشترک رہ گئی تھی جو انہیں پارٹی کا رکن باقی رکھا جاتا۔‘‘
بالکل انہی الفاظ میں ہم یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتے ہیں کہ (اس سارے مرزا نمبر سے قطع نظر صرف زیر نظر افتتاحیہ میں) ان کے کرتوت کو بغور دیکھ کر ہمیں بتلایا جائے کہ مرزائیت اور اسلام کے درمیان کون سی چیز مشترک رہ جاتی ہے کہ مرزائیوں کو ملت اسلامیہ کا رکن باقی رکھا جائے۔ جب وہ اسلام اس کے ارکان اور اس کی عام پالیسی پر شدید حملے نہ کریں بلکہ خود سید الانبیاء رحمتہ اللعالمین کی شان رسالت کو ختم کر کے مرزاغلام احمد قادیانی تخت وتاج نبوت پر قابض ہونے کی ملعون کوشش کرے تو پھر اسلام کا باقی کیا رہ گیا جس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ