مگر مضمون کے اعتبار سے قرآن وحدیث کا نچوڑ ہے۔ اس قول میں علماء امت کا مقام ورتبہ نہیں۔ بلکہ ان کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ جس طرح دین موسوی کی حفاظت واشاعت کی ذمہ داری انبیاء بنی اسرائیل کو تفویض ہوتی تھی، اسی طرح دین مصطفوی کی تبلیغ واشاعت اور حفاظت وصیانت کی ذمہ داری علماء امت کو سپرد کی گئی ہے۔
ایک حدیث شریف میں پیشین گوئی کے انداز ہیں۔ خبر دی گئی ہے کہ: ’’یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین وتاویل الجاہلین (مشکوٰۃ ص۳۶، کتاب العلم)‘‘ {یہ علم دین ہر آئندہ نسل کے معتبر لوگ حاصل کریں گے جو اس دین سے غلو کرنے والوں کی تحریفات، باطل پرستوں کی بدعات اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کریں گے۔}
الغرض! عقیدۂ ختم نبوت برحق ہے۔ دین کی حفاظت واشاعت کے لئے اب کسی طرح کے کوئی نبی تشریف نہیں لائیں گے۔ یہ فریضہ پوری امت کو اور خاص طور پر علماء امت کو انجام دینا ہے۔ الحمدﷲ امت کبھی اپنے اس فریضہ سے غافل نہیں ہوئی۔ مگر یہ بھی واقعہ ہے۔ فی الوقت اندر اور باہر کام کا جو تقاضا ہے وہ شاید پورا نہیں ہورہا ہے۔ خود امت استجابہ میں ایک بڑی تعداد ایسی موجود ہے جن تک تعلیمات نبوی تفصیل کے ساتھ نہیں پہنچ سکی ہیں اور وہ دین کی بنیادی باتوں سے بھی بے خبر ہیں اور ایسے مسلمان بھی ہیں جن کو دین اس کی اصلی صورت میں نہیں پہنچا جس کی وجہ سے وہ طرح طرح کی بدعات وخرافات میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی دنیا کا تقریباً آدھا حصہ وہ ہے جن تک دین کی دعوت بھی شاید نہیں پہنچ سکی ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ نمائندہ اجتماع اس سلسلہ میں عملی اقدام کے لئے غور وفکر کرے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے کمر بستہ ہو کر میدان عمل میں اتر آئے۔ ’’واٰخردعوانا ان الحمدﷲ رب العلمین‘‘
قصر نبوت پر اسلام کے باغیوں کا حملہ اور ہماری ذمہ داری
از: امام علی دانش قاسمی لکھیم پوری
الحمدﷲ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ خاتم النبیین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین۰ اما بعد!
حضرت محمد عربیﷺ اﷲتعالیٰ کے آخری نبی ورسول ہیں۔ ان پر نازل کی جانے والی کتاب قرآن مجید اپنے اصلی الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ ان کی شریعت کامل ومکمل ہے۔ ان کی