کفار کے قرینے، فجار کے طریقے
مرزائیوں کا شیوہ اسلام سے ہے دوری
لاہور کا سقر ہی محمود کا مقر ہے
ہاتھوں سے چھن گئے جب ڈلہوزی و مسوری
اب مقبرہ بھی کوئی پھر دوزخی بنائیں
قبروں کا بیچنا ہے جب دین میں ضروری
مصری کی چاشنی ہی مکھی کو کھینچ لائی
ورنہ اسے گوارا مرکز سے کب تھی دوری
چندوں کی سب اپیلیں ہیں حرص کی دلیلیں
قانع بھلا ہو کیوں کر خواہش کی ناصبوری
باد صبا سے دیکھیں اب ہمنفس ہوں گل کب
تزدیک آگئے ہیں غلمانیوں کے حوری
بکروثیب (کنوری اور بیوہ) مرزاقادیانی کی ایک پیش گوئی
حضرت مجدد وقت کی صداقت
مرزاغلام احمد قادیانی… اپنی زبانی
از: فاتح قادیان حضرت مولانا لال حسین صاحب اختر ؒ!
مرزاغلام احمد نے خشکی پر اپنی نبوت کی کشتی چلائی۔ ان کی ہمت قابل داد ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کشتی کو اپنے چپو کے زور سے کنارے لگانے کی کوشش کی ان کا مقام بھی نبوت سے کچھ کم نہیں۔ بعض مقامات پر تو یہ چپو مار کھیون ہار خود میر بحر سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور ایسے مشکل وقت میں جب کہ میربحر کے اوسان خطا ہوگئے تھے ان کھیون ہاروں نے محض اپنے چپو کے زور سے ناؤ کو پار لگادیا۔ ’’بکروثیب‘‘ کنواری اور بیوہ کا مقام بھی ان چند خطرناک مقاموں میں سے ایک ہے۔ جہاں سے نبوت کی کشتی صحیح سلامت نہ نکل سکتی۔ اگر یہ چپو باز اس کی مدد کو بروقت نہ پہنچ جاتے۔ مدعی نبوت تو حضرت ام المؤمنین (معاذ اﷲ) کی دہلی والی شادی کے بعد بھی فرمارہے ہیں کہ: ’’مقدریوں ہے کہ ایک بکر سے شادی ہو گی اور پھر بعدہ ایک بیوہ سے، میں اس الہام کو یاد رکھتا ہوں۔ مجھے امید نہیں محمد حسین نے بھلا دیا ہو… یہ خدا کا نشان تھا۔ جس کا ایک حصہ اس نے دیکھ لیا اور دوسرا حصہ جو ثیب بیوہ کے متعلق ہے دوسرے وقت میں دیکھ لے گا۔‘‘
یعنی میر بحر تو بکر (حضرت ام المؤمنین) کے بعد برابر ثیب کی راہ میں چشم براہ رہے۔ مگر ؎