نئے آئین کے ماتحت عوام کو جو بنیادی حقوق حاصل ہوچکے ہیں اور ان بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے عدالتی پروانہ حاصل کرنے کا جو آسان طریقہ رائج ہوچکا ہے۔ اور اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے ارباب اقتدار کی متعدد بدعنوانیوں کو روکنے میں جو کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ وہ ختم نبوت پر حتمی عقیدہ رکھنے والوں کے لئے یہ راہ کھول دیتے ہیں کہ وہ ملک کی رائے عامہ پر اپنے مقاصد کی اہمیت واضح کریں۔ انہیں اپنا ہم نوا بنائیں اور مخالفین نے سچائی کے سورج کو چھپانے کے لئے جھوٹ کے جو بادل پھیلا رکھے ہیں۔ ان کو چاک کردیں۔ اگر یہ کام سلیقے اور صبر سے انجام دیا جائے۔ تو ان مٹھی بھر مفاد پرستوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ جو تحریک کو بدنام کرکے اپنا اُلّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔
کانفرنس اب منعقد ہونے کی وجہ
یہ وجہ تھی کہ شہداء ختم نبوت کانفرنس چار سال تک اس پیمانے پر منعقد نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تازہ حالات میں نہ راست اقدام کی ضرورت باقی ہے۔ نہ تحریک کے عزائم کو آئین اور قانون کی حدود کے اندر پروان چڑھنے سے دشمنوں کی کوئی سازش رک سکتی ہے اور نہ آج کوئی ایسی طاقت ملک کے اندر موجود ہے۔ جو تشدد اور جبر سے اس تحریک کو کچل سکے۔
جب قدرت نے یوں ہمیں چار سال پہلے شمع نبوت پر قربان جانے والے ان پروانوں کی یادگار منانے کا موقع دیا ہے تو آئیے ہم ذرا غور کریں کہ شہادت کیا ہے؟ شہادت کا منصب کیا ہے؟ اسلامی شہید کی وہ کیا خصوصیت ہے جو اسے دنیا کے دوسرے نامور سورمائوں سے ممتاز کرتی ہے۔ جو کسی قومی یا دنیاوی مقصد کی خاطر اپنی جان قربان کردیتے ہیں۔
موت سے بڑی قربانی کوئی نہیں
اس دنیا کی تمام تکالیف اور مصیبتوں کی بابت کہا گیا ہے کہ وہ موت کے ایک جزو سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے اگر کافر بھی کسی مقصد کی خاطر اپنی جان قربان کرتا ہے تو ہمیشہ احترام کی نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ مسلمان جب کسی دنیا کے جھگڑے میں اپنی جان پر کھیل جاتا ہے تو چاہے اس میں دین کے کسی حکم کی خلاف ورزی بھی کی گئی ہو تب بھی مرنے والے سے ایک عجیب قسم کی ہمدردی محسوس کی جاتی ہے۔
دیکھئے چند سال پہلے ڈھاکہ میں بعض بنگالی نوجوانوں نے اس مقصد کی خاطر بلوہ کردیا کہ سرکاری زبان بنگالی ہونی چاہئے۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح بنگالیوں کو سرکاری نوکریاں زیادہ