بریں جو شخص ہمہ عمر عبادت الٰہی میں صرف کردے۔ گمراہی کا عقیدہ یہ ہو کہ عالم قدیم ہے قیامت نہیں آئے گی۔ خدا تعالیٰ جزئیات کو نہیں جانتا۔ یہ شخص اہل سنت کے نزدیک اہل قبلہ سے نہیں۔ رہا اہل سنت کایہ قول کہ ہم اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ افعال کفر (مثلاً سجدہ صنم) کا مرتکب ہو۔ علامات کفر اس سے ظاہر نہ ہوں۔ (جسے زنار باندھنا)
علامہ عبدالعزیز فرہاوی نبراس ص۵۷۲ میں لکھتے ہیں: ’’اہل قبلہ متکلمین کی اصطلاح میں جو ضروریات دین یعنی دین کے بدیہی مشہور مسائل کے مقر ہوں۔ بنا بریں جو شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہوگا۔ جیسے حدوث عالم یا قیامت یا خدا کے احاطہ علمی یا فرضیت صلوٰۃ وصوم کا منکر ہو۔تو وہ اہل قبلہ میں داخل نہیں۔ اگرچہ زاہد مرتاض ہی ہو۔ علیٰ ہذاالقیاس۔ جس شخص میں کفر کے علامات پائے جائیں۔ مثلاً سجدہ صنم یا کسی شرعی مسئلہ کا استخفاف کرے۔ وہ بھی اہل قبلہ سے نہیں۔ اہل سنت کا یہ مسئلہ کہ ’’ہم اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔‘‘ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ ہم عاصی کو، دین کے غیر ضروری نظری مسائل کے منکر کو کافر نہیں جانتے۔ یہ محققین کا مذہب اور عقیدہ اور تحقیق ہے۔‘‘
فقہا اور اصولییّن کی رائے
۱… تحقیق شرح مسامیٰ میں اور کشف الاسرار شرح اصول بزدوی ج۳ ص۳۳۸ میں ہے: ’’وان غلافی ہواہ حتی وجب اکفارہ بہ لا یعتبر خلافہ ووفاتہ ایضاً لعدم دخولہ فی مسمی الامۃ المشہد دلہا بالصمۃ وان صلی الیٰ القبلۃ واعتقد نفسہ مسلماً لان الامۃ لیست عبارت عن المصلین الیٰ القبلۃ بل عن المؤمنین وہو کافر وان کان لا یدری انہ کافر‘‘ {اگر کسی متبدع کا غلو کفر کے درجہ تک پہنچ جائے تو اجماع امت کے مسئلہ میں داخل ہی نہیں۔ جس کے لئے آں حضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ تمام کی تمام گمراہ نہ ہوگی۔ ہر چند کہ وہ قبلہ رخ ہوکر نمازیں پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان شمار کرتا ہو۔ یہ اس لئے کہ امت محمدیہ عبارت اس سے نہیں۔ کہ کوئی قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھ لے۔ بلکہ امت مومنین کا نام ہے اور یہ شخص مومن نہیں بلکہ کافر ہے۔}
۲… علامہ ابن عابدین ردالمحتار ص۳۷۷ میں لکھتے ہیں: ’’لاخلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام وان کان من اہل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات کما فی شرح التحریر‘‘ {ضروریات دین کا منکر بالاتفاق کافر ہے۔ اگرچہ اہل