۲… تمام گرفتارشدگان کی غیر مشروط رہائی۔
۳… مرزائیوں کو اقلیت قرار دیاجائے۔
ہڑتال بے مثال
درحقیقت یہی وہ لمحہ تھا جب تحریک کے قائدین نے بے وقت اور بے مثل فیصلہ کیا اور اسے ناکامی سے بچالیا۔ اس فیصلے کی بدولت ایک طرف مشتعل عوام کی تمام تر قوت مکمل ہڑتال کے پرامن راستے پر صرف ہونے لگی۔ دوسری طرف بے قابو اشتعال کے بجائے ایک محسوس منزل مقصود (Goal) دے دی گئی۔ وہ منزل پہلے دو مطالبات کی صورت میں تھی۔ پر امن مکمل ہڑتال کے نتیجے میں کھانے پینے کی دکانیں یعنی ہوٹل، تندور، داشت (یہ پٹھان طرز کے تندور ہیں جو بیکریوں کی بھٹیوں سے مشابہ ہیں) اور سبزی کی دکانوں وغیرہ کے سوا پورا بازار بند تھا۔ بسیں اور دیگر سواریاں بند تھیں۔ سکول کالج بند تھے۔ حتیٰ کہ سرکاری دفتروںمیں حاضری برائے نام رہ گئی تھی۔ حکومت نے اس صورتحال پر قابو پانا چاہا۔ حکومت نے جبراور اشتعال کے سب حربوں کو آزمایا۔ چنانچہ اگلے ہفتے کی داستان عوام اور حکومت کے درمیان اسی کشمکش سے عبارت ہے جس میں حکومت زیر ہوئی اور ژوب کے عوام کا عزم بالآخر کامیاب رہا۔
ڈپٹی سپیکر کا اغواء
اسی روز رات تک فیڈرل سکیورٹی فورس فورٹ سنڈیمن پہنچ گئی۔ چنانچہ اگلے روز سولہ جولائی سے طاقت کا ننگا مظاہرہ شروع ہوا۔ عوام کی طرف تانی ہوئی مشین گنوں اور دوسرے خود کار ہتھیاروں سے لیس دستوں نے گاڑیوں پر سوار شہر کا گشت شروع کیا۔ تاکہ انہیں ہراساں کیا جاسکے۔ دفعہ ۱۴۴؍نافذ کردی گئی۔ فورٹ سنڈیمن سب ڈویژن کے ای۔ اے۔ سی نے شہر میں ڈھنڈورا پٹوایا۔ یہاں ابھی تک اعلان کی یہ کلاسیکل روایت قائم ہے کہ دکاندار دکانیں کھول دیں۔ ورنہ جو دکان بند پائی گئی اسے سرکار سیل کردے گی۔ گویا بحق سرکار ضبط کرلیا جائے گا۔ طلبہ کو اپنی تعلیم گاہوں میں پہنچنے کی ہدایت کی گئی اور ٹرانسپورٹ کو جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ لیکن عوام منظم ہوچکے تھے۔
انہوں نے نہ دکانیں کھولیں، نہ ٹرانسپورٹ چلائی اور نہ دفعہ ۱۴۴؍کی پروا کی۔ اس روز دفعہ ۱۴۴؍توڑنے والوں میں سابق ڈپٹی وزیر مغربی پاکستان وحال صدر ضلعی نیپ جناب صالح محمد مندوخیل سبقت لے گئے۔ نماز عصر سے پیشتر جامع مسجد میں جلسہ ہورہا تھا۔ ڈپٹی سپیکر مولانا شمس