عباس اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کی غیر اسلامی شخصی حکومتوں کو ہم الٰہی حکومتیں سمجھتے رہے۔ زیادہ تر ملت اسلامیہ کی اس ایک غلط فہمی کی وجہ سے دنیا کا بڑا حصہ اسلام یعنی حکومت الٰہی سے اب تک محروم ہے۔
اسی لئے امام احمد بن حنبلؓ کو سچ کہنے کے بدلہ میں کوڑوں سے اپنا جسم لہولہان کروانا پڑا۔ اور قید وبند کا مزا چکھنا پڑا۔ امام ابو حنیفہؓ کو راست گوئی کی خاطر جیل جاکر یوسف علیہ السلام کی سنت تازہ کرنی پڑی۔ امام ابن تیمیہؒ نے بھی جیل خانہ کی ہوا کھا کر سچائی کی سند حاصل کی۔ قیام حکومت کے سلسلہ ہی میں مولانا اسماعیل شہیدؒ کی شہادت کو ابھی ایک صدی ہی کا عرصہ گزرا ہے۔ اور دور کیوں جاتے ہو۔ اس زمانے کے حامیان حکومت الٰہی شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حکیم محمد اجمل خاں صاحب مرحوم اور رئیس الاحرار مولانا محمد علی صاحبؒ کے تو ابھی کفن بھی میلے نہیں ہوئے۔
موجودہ زمانہ میں حکومت الٰہی کے قیام کی آسانیاں
ساڑھے تیرہ صدیوں میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا۔ لیکن ہمارا سفرا بھی بہت زیادہ باقی ہے۔ لیکن ہمارا کام بہت آسان ہوگیا ہے۔ کیونکہ موجودہ دنیا کی علمی تحقیقات اور سائنس کی ایجادات نے قرآن کی ظاہر وپوشیدہ سچائیوں کو عقلی کسوٹیوں پر لگا کر اقرار کرنا شروع کردیا ہے۔ کہ محمد رسول اﷲﷺ کی تعلیم ہی تعلیم فطرت ہے۔ اس لئے اسی تعلیم میں دنیا کی نجات ہے۔ اسی لئے دنیا خود بخود حکومت الٰہی کی متلاشی اور حمایت پر آمادہ ہوتی جارہی ہے۔ اور مختلف ناموں سے قیام نظام حکومت الٰہی کے لئے کوشاں ہے۔ مسلمانو! سمجھو کہ نظام حکومت الٰہی کیا ہے۔ تاکہ اسے سمجھ کر ہم اپنی منزل کا راستہ آسان بنائیں۔
نظام حکومت الٰہی
نظام حکومت الٰہی کی تفصیل وتشریح قرآن وحدیث اور ان دونوں کی زندہ تفسیر یعنی آخری نبی کے نمونۂ عمل میں موجود ہے۔ جس کا اختصار یہ ہے کہ دنیا کا حکمران یعنی اﷲ ایک ہے۔ محمدﷺ اس کے آخری رسول ہیں۔ جن کے ذریعہ سے دنیا کو آخری مکمل آئین (کانسٹی ٹیوشن) دیا گیا ہے۔ اور انہیں کے ہاتھ سے حکومت الٰہی کا نمونہ مکہ میں قائم ہوا۔ جس کے بعد اعلان کیا گیا کہ سب اولاد آدم ایک ہی کنبہ ہے۔ اور آدم مٹی سے بنا تھا۔ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں۔ نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت ہے۔ کسی نسل کو کسی نسل پر کوئی امتیاز نہیں۔ صرف فضیلت کے قابل وہی انسان ہے۔ جو پاک باز اور نیک عمل کرتا ہے۔ حکومت الٰہی میں ساری دنیا کی دولت دنیا والوں کی