جنرل ہی اس اصلاحی قدم کے محرک اولیٰ تھے۔ تو وہ کیا قوت تھی جس نے گورنر جنرل کی مطلق العنانی کے دور کو استقامت حاصل نہ کرنے دی۔ شاید کہا جائے کہ یہ ملک کی رائے عامہ تھی۔ یا دانشور طبقہ کا جمہوری شعور تھا جس نے یہ کارنامے انجام دئیے۔ لیکن میں اس صورت حال میں یہ دوسرا سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا مضراب تھی جس نے ملکی رائے عامہ اور دانشور طبقہ کی رگوں میں چھ سال سے منجمد خون کو پھر زندگی کی گردش سے حرارت عطا کی۔ بلاشبہ یہ شہداء ختم نبوت کے گرم خون کی تپش تھی۔ جس نے اس جمودوتعطل کو دور کیا۔
دنیا کی ہر نعمت شہداء کی قربانی کے طفیل حاصل ہے
اگر خدانخواستہ اس تمام مجمع میں کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جسے شہداء کی اخروی عظمتوں کے باور کرنے میں ذرا شک ہے تو میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ایسے شخص کی توجہ اس کھلی حقیقت کی طرف مبذول کروا دے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی اسلامی تحریک جس طرح وطن پرستی کی آڑ میں جلب منفعت اور استبدادی حکومت کے استقلال کے راستے پر چل نکلی تھی۔ اس کی باگیں موڑ کر اسے جمہوریت، آئین اور اسلامی اقدار کے راستے پر لانے والی واحد قوت ان شہداء کی قربانی تھی۔ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ کہ وہ ایسے شخص کے سینے کو اس سیاسی کارنامے کی قدروقیمت سمجھا کر اس کی بلند تر روحانی عظمتوں کا اندازہ کرنے کی جانب متوجہ کردے۔
اے حاضرین جلسہ! اگر ہم اپنی روزمرہ کی زندگی پر نگاہ ڈالیں۔ اگرہم صرف ان چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ جن سے ہمیں مادی فائدے اور جسمانی لذتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے مکانات اورز مینیں جو باپ دادا سے ورثے میں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ باپ، بیٹے اور بہن بھائی کے رشتے جن سے آنکھوں کو سرور اور دلوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ یہ لذیذ کھانے جو کھائے جاتے ہیں اور پینے کی چیزیں جنہیں پیا جاتا ہے۔ یہ دوستوں کی محفلیں اور یہ برادریوں کی رسمیں جس سے میل جول اور دنیاکے ملاپ قائم ہیں۔ غرض دنیا کی ہر شے اور ہر وہ رشتہ جس سے یہاں آرام ملتا ہے۔ یا دنیاکی زندگی بامعنی بنتی ہے۔ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر قائم نہیں کہ ہمارے معاشرے کے اندر ایک اپنایت کا رشتہ قائم ہے اور ہم میں کم از کم کچھ لوگ بعض اقدار پر متفق ہیں؟ خدانخواستہ اگر ہمارے اندر سے حرام اور حلال، جائز اور ناجائز، برے اور بھلے کی تمیز مٹ جائے تو کون کس کا رہے گا؟ نہ کوئی کسی کا باپ ہوگا اور نہ کوئی کسی کا بیٹا۔ کوئی کسی جائیداد کا مالک ہوگا اور نہ کوئی کسی کا وارث۔ نہ کوئی اپنا ہوگاا ور نہ کوئی بے گانہ وغیرہ۔