ہوچکا ہے۔ تومیں پوچھتا ہوں وہ کون بدبخت ہوگا۔ جو اس جہاں کی برکتوں سے محرومیت قبول کرنے کے بعد اس جہان کی ایک ایک گھڑی کو بامعنی بنانیوالے عالی حوصلہ عاشقان پاک طینت کی عظمت کا بھی انکار کرے۔
تحریک صرف مذہبی نہیں تھی
اے دوستو! جب ہم ان پاکیزہ روحوں کو فاتحہ کا ثواب پہنچانے سے فارغ ہوں۔ تو آئو چند منٹ اس پر بھی غور کریں کہ ان جان پر کھیل جانیوالے دلیروں کے روحانی اور مذہبی عزائم پر جہاں ہم نے نگاہ ڈالی ہے۔ وہاں اس عالم اسباب میں وہ کیاحالات تھے۔ جنہوں نے خاص مارچ ۱۹۵۳ء میں انہیں اس تحریک کاعلم بردار بننے کی رغبت دی۔
یہ ایک مشہور مسئلہ ہے کہ مسلمان کا دین اس کی دنیا سے جدا نہیں۔ مسلمان کی سیاست اس کی عبادت سے منقطع نہیں۔ باوجود اس کے تحریک تحفظ ختم نبوت کے متعلق یہ ایک افسوسناک سانحہ ہے کہ اس تحریک کو ان معنوں میں بار بار مذہبی تحریک کہاگیا ہے۔ گویا یہ ایک سیاسی، اقتصادی اور عالم گیر تحریک نہ تھی۔ جب مذہبی کا لفظ ان معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے تو اس کی وہی گت بن جاتی ہے۔ جس طرح ’’مذہبی سکھوں‘‘ کی ترکیب لفظی ہیں۔
مذہب کا اسلامی مفہوم مسخ ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ تحریک تحفظ ختم نبوت ان معنوں میں ایک مذہبی تحریک تھی جن معنوں میں تحریک حصول کشمیر ایک مذہبی تحریک ہے اور جن معنوں میں سودکی ممانعت سے پاکستان کی اقتصادیات کو مغربی بنکاری کے انسانیت کش اثرات سے نجات دلانے کی تحریک ایک مذہبی تحریک ہوگی۔ اس غلط فہمی اور غلط بیانی کی ابتداء اس ماحول میں ہوئی جب کہ راست اقدام کو بغاوت کے مترادف قرار دینے کی ناجائز کوشش جاری تھی۔
تحریک کا مقصد سیاسی بھی تھا
جس شخص نے تحریک تحفظ ختم نبوت کی ابتداء اور ارتقاء کے مراحل کا مطالعہ کیا ہے اور اس وقت کی تقاریر اور جلسوں کی کارروائی اور کارکنوں کی جدوجہد اور تنظیم کی سرگرمیوں پر اس کی نگاہ ہے۔ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس تحریک کے چلانے والوں کو صرف یہ خیال دامن گیر نہ تھا کہ وہ الٰہیات، فقہ یا علم عقائد کا کوئی اصولی مسئلہ بجائے مدرسہ میں طے کرنے کے مسند حکومت پر بیٹھ کر سلجھانے کے خواہشمند تھے۔
بات یہ تھی کہ الٰہیات، فقہ اور علم عقائد کے ایک مسلمہ مسئلہ کو بعض سیاسی، اقتصادی اور عملی سازشوں کی مصلحت نے یوں الجھا دیا تھا کہ بغیر اس مسئلہ کو مسند حکومت پر بیٹھ کر طے کئے نہ ان