راقم الحروف نے مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ مرزاقادیانی کی تحریر میں سچائی اور راستی کا تلاش کرنا کارعبث ہے۔ بڑے بڑے جھوٹے بھی کبھی سچی بات کہہ دیتے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی نے گویا قسم کھا رکھی ہے کہ وہ کلمہ طیبہ بھی پڑھے گا تو اس میں اپنے جھوٹ کی آمیزش ضرور کرے گا۔ پیش نظر مقالہ میں بطور نمونہ تیس جھوٹ ذکر کئے گئے ہیں۔ دس آنحضرتﷺ پر، دس حق تعالیٰ شانہ پر اور دس حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر۔
آنحضرتﷺ کی ذات گرامی پر مرزاقادیانی کے دس جھوٹ
آنحضرتﷺ کی طرف کسی غلط بات کو منسوب کرنا خبیث ترین گناہ کبیرہ ہے۔ احادیث متواترہ میں اس پر دوزخ کی وعید آئی ہے اور جس شخص کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ اس نے ایک بات بھی آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کی ہے وہ مفتری اور کذاب ہے اور اس کی کوئی بات اور کوئی روایت لائق اعتماد نہیں رہتی۔ مرزاغلام احمد قادیانی اس معاملہ میں نہایت بے باک اور جری تھا۔ وہ بات بات میں آنحضرتﷺ پر افترأ پردازی کرنے کا عادی تھا۔ یہاں اس کی دس مثالیں پیش کرتا ہوں۔
۱… ’’انبیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر مہر لگادی ہے کہ وہ (مسیح موعود) چودھویں صدی کے سر پر ہوگا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۲۳، خزائن ج۱۷ ص۳۷۱)
انبیاء گذشتہ کی تعداد کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ان کی طرف مرزاقادیانی نے دو باتیں منسوب کی ہیں۔ مسیح کا چودھویں صدی کے سر پر آنا اور پنجاب میں آنا اور یہ نسبت خالص جھوٹ ہے۔ اس طرح مرزاقادیانی نے صرف ایک فقرہ میں ڈھائی لاکھ جھوٹ جمع کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔
نوٹ… پہلے ایڈیشن میں انبیاء گذشتہ کا لفظ تھا۔ بعد میں اس کی جگہ ’’اولیاء گذشتہ‘‘ کا لفظ کر دیا گیا۔ اس تحریف کے بعد بھی جھوٹ کی سنگینی میں کچھ کمی نہیں ہوتی۔
۲… ’’مسیح موعود کی نسبت تو آثار میں یہ لکھا ہے کہ علماء اس کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۸۶، خزائن ج۲۱ ص۳۵۷)
آثار کا لفظ کم ازکم دو تین احادیث پر بولا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مضمون کسی حدیث میں نہیں۔
۳… ’’ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ (مسیح موعود) صدی کے سر پر آئے گا اور چودھویں صدی کا مجدد ہوگا… اور لکھا تھا کہ وہ اپنی پیدائش کی رو سے دو صدیوں میں اشتراک رکھے گا اور دو نام پائے گا اور اس کی پیدائش دو خاندانوں سے اشتراک رکھے گی اور چوتھی دوگونہ