انسان کی تمدنی تاریخ میں غالباً ختم نبوت کا تخیل سب سے انوکھا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ مغربی اور وسط ایشیا کے مؤبدانہ تمدن کی تاریخ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے۔ مؤبدانہ تمدن میں زرتشتی، یہودی، نصرانی اور صابی تمام مذاہب شامل ہیں۔ ان تمام مذاہب میں نبوت کے اجراء کا تخیل نہایت لازم تھا۔ چنانچہ ان پر مستقل انتظار کی کیفیت رہتی تھی۔ غالباً یہ انتظار نفسیاتی حظ کا باعث تھی۔ عہد جدید کا انسان روحانی طور پر مؤبد سے بہت زیادہ آزاد منش ہے۔ مؤبدانہ رویہ کا نتیجہ یہ تھا کہ پرانی جماعتیں ختم ہوتیں اور ان کی جگہ مذہبی عیار نئی جماعتیں لاکھڑی کرتے۔ اسلام کی جدید دنیا میں جاہل اور جوشیلے ملّا نے پریس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبل اسلامی نظریات کو بیسیوں صدی میں رائج کرنا چاہا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اسلام جو تمام جماعتوں کو ایک رسی میں پرونے کا دعویٰ رکھتا ہے ویسی تحریک کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھ سکتا۔ جو اس کی موجودہ وحدت کے لئے خطرہ ہو اور مستقبل میں انسانی سوسائٹی کے لئے مزید افتراق کا باعث بنے۔
اس سے قبل اسلامی مؤبدیت نے حال ہی میں جن دو صورتوں میں جنم لیا ہے میرے نزدیک ان میں بہائیت، قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے۔ کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے۔ لیکن مؤخر الذکر اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہری طور پر قائم رکھتی ہے۔ لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے۔ اس کا حاسد خدا کا تصور کہ جس کے پاس دشمنوں کے لئے لاتعداد زلزلے اور بیماریاں ہوں۔ اس کا نبی کے متعلق نجومی کا تخیل اور اس کا روح مسیح کے تسلسل وغیرہ کا عقیدہ۔ یہ تمام چیزیں اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہے گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔ روح مسیح کا تسلسل، یہودی باطنیت کا جز ہے۔ پولی مسیح بال ثیم (Bal Shem) کا ذکر کرتے ہوئے پروفسیر بوبر کہتا ہے۔ ’’مسیح کی روح پیغمبروں اور صالح آدمیوں کے واسطہ سے زمین پر اتری۔‘‘
اسلامی ایران میں مؤبدانہ اثر کے ماتحت ملحدانہ تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے بروز، حلول، ظل وغیرہ اصطلاحات وضع کیں تاکہ تناسخ کے اس تصور کو چھپا سکیں۔ ان اصطلاحات کا وضع کرنا اس لئے ضروری تھا کہ وہ مسلم کے قلوب کو ناگوار نہ گزریں۔ حتیٰ کہ مسیح موعود کی اصطلاح بھی اسلامی نہیں بلکہ اجنبی ہے اور اس کا آغاز بھی اسی مؤبدانہ تصور میں ملتا ہے۔ یہ اصطلاح ہمیں اسلام کے دور اوّل کی تاریخی اور مذہبی ادب میں نہیں ملتی۔