العمل (کانٹی ٹیوشن) قرآن ہے۔ اور کہ آئندہ مسلمانوں کی پالیسی یہ ہوگی۔ کہ دنیا بھر میں یہی نظام حکومت الٰہی (دستور العمل) نافذ کیا جائے۔ چنانچہ حضورﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین کے عہد تک وہی نظام حکومت الٰہی قائم رہا۔ اور جمہوریت اسلامیہ شام، مصر، ایران اور عراق وغیرہ تک پھیل گئی۔
عہد معاویہؓ میں نظام حکومت الٰہی کے بجائے شخصی حکومت کا قیام
لیکن اس کے بعد شہادت عثمانؓ سے پیدا شدہ اموی ہاشمی سوال نے بنو اُمیہ کی زبردست اکثریت اور کچھ وقتی حالات کی وجہ سے معاویہؓ کے لئے سیاست اسلامیہ پر قابض ہوجانے کا موقع پیدا کردیا۔ اور جناب امیر کرم اﷲ وجہہ کا عہد خلافت ختم ہوتے ہی جمہوریت الٰہیہ اسلامیہ شخصی حکومت میں تبدیل ہوگئی۔ اور اسی بدعت کو قائم رکھنے کے باعث صبر حسینؓ کی آزمائش ہوئی۔ یہ اس لئے کہ معاویہؓ نے خلافت اسلامیہ الٰہیہ کو شخصی حکومت بنا دینے کے بعد اس بدعت کو نسلی وراثت بنا دیا اور اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو وارث تخت قرار دیا۔ لیکن سید الشہدائؓ نے اس بدعت کو تسلیم کرنے کے بجائے تاج شہادت قبول کیا۔ اور رہتی دنیا تک مثال قائم کردی کہ مرد مومن حکومت الٰہی میں ردوبدل برداشت کرنے کے بجائے اپنی جانوں پر کھیل جانے کی سنت تازہ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ خلیل اﷲ کی قربانی کے بعد اسلام کی اس سب سے بڑی قربانی کا لطف اقبال نے اپنی تازہ تصنیف ’’بال جبریل‘‘ میں اس طرح پھیلایا ہے کہ ؎
صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدروحنین بھی عشق
آج اس بنیادی سبق کو بھول کر ہم مسلمان کہلاتے ہوئے بھی ذلت وخواری میں مبتلا ہیں اور ملکوں کے ملک کھودینے کے ساتھ ہی ایمان لٹا بیٹھنے کے بعد بھی اپنی اسامیت پر مطمئن ہیں۔ خدا کے لئے غور کرو کہ مقصد اسلام سے منہ پھیر کر…… بنیادی سنت کی پیروی کے بغیر ہمارا اسلام محمدﷺ کی منافقانہ وفاداری کے دھوکہ باز اعلان کے سوائے اور کیا ہے؟
اب ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آیا ساڑھے تیرہ صدیاں گزر جانے کے بعد اس وقت تک چالیس پچاس کروڑ مسلمانوں کی موجودگی کے باوجود دنیا بھر میں حکومت الٰہی قائم ہوگئی یا کہ نہیں؟ جس کا جواب صاف ہے کہ دنیا بھر میں حکومت الٰہی قائم ہونے کے بجائے عہد معاویہؓ سے لے کر اب تک حکومت الٰہی کا صحیح تصور بھی ہمارے ذہن سے دور رہا۔ اور بنو اُمیہ وبنو