چنانچہ رئیس المحدثین سیدالاساتذہ حضرت العلام سیدا نور شاہ کشمیریؒ نے آخری عمر میں دارالعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ اور طلبہ کو جمع کرکے فرمایا کہ اگر شفاعت نبی علیہ السلام درکار ہے تو امت محمدیہ کو دشمنان ختم نبوت سے بچائو۔
اسی طرح آپ نے ایک دوسرا واقعہ ارشاد فرمایا کہ تحریک مقدسہ کے دوران ایک عورت اپنے خاوند کو روکتی تھی کہ تحریک میں شامل نہ ہو۔ لیکن سیدۃا لنساء اہل الجنت حضرت فاطمہؓ خواب میں تشریف لائیں اور نہایت غصے میں فرمایا کہ میرے ابا جی کی عزت کا مسئلہ ہے اور تم اپنے خاوند کو روکتی ہو۔ چنانچہ اس عورت نے معافی مانگی اور خاوند کو جیل بھیج دیا۔ حضرت خاتون جنت نے اسے بشارت بھی دی کہ انشاء اﷲ تیرا خاوند جلدی آجائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ان واقعات کے اظہار کا مقصد یہ ہے کہ یہ کوئی دنیوی کام نہیںبلکہ خالصتاً دینی کام ہے اور اس کام میں معاونت وشرکت رضا الٰہی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
حضرت مولانا کی تقریر حواشی اور احقر کے قلم سے لکھا ہوا ابتدائیہ ملاحظہ فرمانے کہ بعد ہر آدمی رئیس الاحرار چودھری افضل حق مرحوم کی اس رائے کو درست تسلیم کرے گا کہ ’’مرزائی برٹش امپیریلزم‘‘ کے کھلے ایجنٹ ہیں۔ مسلمانوں کی جمعیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ان کا مشن ہے۔ وہ اعلیٰ طبقہ کا ذہن رکھتے ہیں۔ اردگرد کی غریب آبادیوں کا بائیکاٹ کرنا اور دوسرے ذریعوں سے انہیں مرعوب کرنا ان کا دھندا ہے۔ اوروہ مسلمانوں میں بطور ففتھ کالم کام کرتے ہیں (تاریخ احرار ص۱۸۰) اور جب یہ درست ہے تو انہیں اقلیت قرار دینے میں کون سا عذر ہے؟ کیا ارباب حل وعقد اس مسئلہ پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔
تقریر حضرت مولانا محمد علی جالندھری
مکی مسجد گوجرانوالہ شہر ۲۱؍اکتوبر ۱۹۶۶ء
خطبہ مسنونہ کے بعد مولانا نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی۔
’’اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ ما کان محمد ابا احد من رجالکم الآیۃ‘‘