پیش آئی، آپ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس گمراہی کا قلع قمع کر دیا۔ مگر اس کے بعد بھی برابر جھوٹے مدعیان نبوت اٹھتے رہے اور الحمدﷲ! ہر دور میں علماء امت نے خم ٹھونک کر ان کا مقابلہ کیا۔ بڑھتے ہوئے سیلاب کو روک دیا۔ بہت تھوڑی جماعت ان کے دجل وفریب سے متأثر بھی ہوئی۔ مگر امت کی اکثریت کو، ہر دور کے علماء حق اور مبلغین اسلام نے اس فتنے کے بھنور میں ڈوبنے سے بچایا ہے۔
ہندوستان میں بھی یہ، اور دوسرے فتنے نئے نئے روپ سے ابھرتے رہے ہیں اور ان سب میں گہرا، گمراہ کن اور دیرپا فتنہ مرزاغلام احمد قادیانی کا فتنہ تھا۔ جو تجدد، محدثیت، مہدویت، مسیحیت سے ترقی کر کے حریم نبوت کے تقدس کو بزعم خویش تارتار کر گیا اور اپنے آغاز سے لے کر آج تک یہ فتنہ برابر موجود ہے۔ وقتاً فوقتاً جگہ جگہ سر اٹھاتا رہتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ تو اس فتنے کا گڑھ بن ہی چکا ہے۔
مرزاقادیانی کے دعوے کے اسباب
مرزا نے ایسا دعویٰ کیوں کیا۔ متعدد تحریروں کے دیکھنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ اوّل تو خود ان کے دماغ میں بچپن ہی سے، تعلی، عجب، خود نمائی اور طلب شہرت کا کیڑا رینگتا رہتا تھا۔ اس پر ستم یہ کہ طرح طرح کے موذی امراض کا حملہ، مالیخولیا، ہسٹیریا اور جانے کیا کیا، الا بلا، جس میں انسان کا دل ودماغ صحیح کام نہیں کر سکتا تھا۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی تحریر فرماتے ہیں: ’’مرزاغلام احمد قادیانی جو ذہنی انتشار کے مریض تھے۱؎ اور بڑی شدت سے اپنے دل میں یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ ایک نئے دین کا بانی بنے، ان کے کچھ متبعین اور مؤمنین ہوں اور تاریخ میں ان کا ویسا ہی نام ومقام ہو جیسا جناب رسول اﷲﷺ کا ہے۔‘‘
۱؎ یہ حاشیہ مولانا ندوی مدظلہ کا ہے۔ ’’اس شخص میں تین ایسی چیزیں بیک وقت جمع تھیں جنہیں دیکھ کر ایک مؤرخ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ ان میں سے اہم ترین اور حقیقی سبب کسے قرار دیا جائے جس نے اس شخص سے یہ ساری حرکتیں سرزد کرائیں۔ (۱)دینی رہنمائی کے منصب پر پہنچا جائے اور نبوت کے نام سے پورے عالم اسلام پر چھایا جائے۔ (۲)مالیخولیا جس کے باربار تذکرہ سے اس کی اور اس کے ماننے والوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ (۳)مبہم اور غیرواضح قسم کے سیاسی اغراض ومفادات اور سرکار انگریزی کی خدمت گذاری۔‘‘
(مولانا علی میاں ندوی ص۹، قادیانیت دین محمد اور اسلام کے خلاف ایک بغاوت)