مذکورہ بالا مباحث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہی حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام ہوں گے جو زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے اور مہدی امت محمدیہ کے ایک فرد ہوں گے۔ جو نزول مسیح کے وقت امت محمدیہ میں پہلے سے موجود ہوں گے۔ لہٰذا دونوں ایک شخصیت نہیں، دو شخصیتیں ہیں۔
رد قادیانیت پر فضلاء دارالعلوم دیوبند کی تصنیفی خدمات
از: برہان الدین سنبھلی، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
’’الحمدﷲ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین خاتم النبیین محمد والہ واصحابہ اجمعین ومن تبعہم باحسان الیٰ یوم الدین‘‘
اﷲتعالیٰ نے اپنے علم وحکمت کے تقاضہ سے ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں کم وبیش چھ سو سال کے طویل فترہ (وقفہ) کے بعد پھر وحی آسمانی اور ملائکہ ربانی اپنے ایک مقرب ترین بندے اور رسول جناب محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب الہاشمی (علیہ الف الف صلوٰۃ وسلام) کے پاس بھیجے اور تقریباً ۲۳سال تک یہ آمدوشد جاری رکھنے کے بعد اکمال دین واتمام نعمت کا اعلان فرما کر ہمیشہ کے لئے یہ سلسلہ بند کر د۱؎یا۔ کیونکہ اس میں نہ پھر تبدیلی کی ضرورت تھی نہ اضافہ کی گنجائش۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا احمد بن عبدالرحیم المعروف شاہ ولی اﷲ رحمہ اﷲ نے اپنے حکیمانہ اسلوب میں فرمایا ہے کہ آخری شریعت کا مادہ فطرت انسانی کے عین۲؎ مطابق بنایا گیا ہے۔ یا بالفاظ دیگر قامت انسانی کے لئے ایسا جامہ عطا کر دیا گیا جو ہر طرح لائق ومناسب نیز پائیدار ہے تو پھر اس میں کتربیونت یا پیوندکاری اور تبدیلی فضول کام ہی قرار پائے گا۔ (جس سے اﷲتعالیٰ جو حکیم وخبیر بھی ہے کی ذات پاک ہے) البتہ یہ ضرورت بہرحال تھی کہ وہ ’’جامہ‘‘ ربودگی وفرسودگی
۱؎ مشہور مصری عالم علامہ خضری (صاحب تصانیف کثیرہ) نے اپنی مشہور زمانہ کتاب تاریخ التشریع الاسلامی ص۵،۶ میں قول راجح اسے قرار دیا ہے کہ آنحضرتﷺ پر پہلی وحی کا نزول ۱۷؍رمضان المبارک کو ہوا اور آخری آیت ۹؍ذی الحجہ کو نازل ہوئی۔ اس طرح کل مدت وحی ۲۲؍سال ۲؍ماہ ۲۲؍دن ہوتی ہے۔ (تاریخ التشریع الاسلامی ص۵،۶، مطبوعہ مصر)
۲؎ شاہ صاحب کے الفاظ یہ ہیں: ’’واذا کان کذالک وجب ان تکون مادۃ شریعۃ ماہو بمنزلۃ المذہب الطبیعی (حجۃ اﷲ ج۱ ص۱۸، مطبوعہ مصر)‘‘