وقت کا بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ امت کے عوام ہی میں نہیں بلکہ ان میں جن کو خواص سمجھا جاتا ہے ایک بڑی تعداد ہے جو دین کے بنیادی عقائد وحقائق کے بارے میں بھی، تسامح، تساہل اور چشم پوشی کے رویہ کو اچھے اچھے نام دے کر اختیار کرتی جارہی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ وہ ایمانی غیرت وحمیت اور وہ دینی حس جو اکثر بڑے بڑے فتنوں کے مقابلہ میں محافظین دین کی مددگار رہی ہے کہیں وہ اتنی مضمحل نہ ہو جائے کہ پھر اس کے بعد آپ کو دو طرفہ کام کرنے پڑے۔ ایک تو آپ کو ان فتنوں کا مقابلہ کرنا پڑے اور دوسری طرف امت کو بلکہ ان کے خواص کو اس بات پر مطئمن کرنے پر اپنی توانائی صرف کرنی پڑے کہ عقیدہ اور دین پر کسی اور شے کو مقدم کرنا ہمارے دین کے خلاف ہے۔
اگر یہ اجلاس ختم نبوت کے خلاف ہونے والی صریح اور پوشیدہ بغاوتوں اور اسی طرح دوسرے فتنوں کے مقابلہ کے لئے اپنے اکابر واسلاف کی روایات کو زندہ کرنے کی کوشش کا نقطۂ آغاز بن جائے اور مدارس کے فضلاء کی ایسی جامع تربیت کا ایسا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کر دے جس کے ذریعہ انہیں دین کی حفاظت اور فتنوں کے مقابلہ کے لئے تیار کیا جائے تو میرے خیال میں یہ اجلاس کی افادیت کا ایک عملی ثبوت ہوگا۔
آخری کلمہ، اﷲتعالیٰ کی حمد وثناء اور خاتم النّبیین حضرت محمدﷺ پر درود وسلام ہے۔ ’’اللہم انصر من نصر دین محمدﷺ واجعلنا منہم واخذل من خذل دین محمدﷺ ولا تجعلنا منہم‘‘
M!
قادیانیت اسلام کے متوازی ایک جدید مذہب
’’الحمدﷲ وکفٰی وسلام علے عبادہ الذین اصطفیٰ‘‘
از مولانا حبیب الرحمن قاسمی
۱۸۵۷ء کے بعد اگرچہ ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط مکمل طور پر قائم ہو گیا تھا اور ان کا پنجۂ استبداد ملک کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔ پھر بھی حکومت برطانیہ اس خطرے سے بے نیاز نہیں تھی کہ ہندوستانی قوم بالخصوص مسلمان جن سے انگریزوں نے ملک کی زمام اقتدار چھینی تھی اگر متحد ومتفق ہوگئے تو اپنے اس غاصبانہ تسلط کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے آئین