تحریک کا آغاز
واقعات کی طرف پلٹتے ہوئے فورٹ سنڈیمن میں تیرہ جولائی دس بجے صبح کا منظر ابھرتا ہے۔ جمعیت العلمائے اسلام کے رہنما اور ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی مولانا شمس الدین جو فورٹ سنڈیمن سب ڈویژن اور تحصیل قلعہ سیف اﷲ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ فورٹ سنڈیمن سب ڈویژن کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر (مخفف۔ ای اے سی، پنجاب کے ایس ڈی ایم کی طرح) سے ملاقات کرتے ہیں۔ ان کے ہمراہ شہر کے معروف عالم مولانا محمد اسحاق خوشی بھی ہیں۔ مولانا شمس الدین، قاضی غلام سرور ان حضرات کے سامنے ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈپٹی کمشنر وپولٹیکل ایجنٹ جناب فقیر محمد بلوچ سے فون پر رابطہ قائم کرتے ہیں۔ جواب ملتا ہے۔ یہ اہم معاملہ ہے۔ اس کے لئے صوبائی ہوم سیکرٹری جناب ارشادا حمد سے مشورہ ضروری ہے۔ اتفاق سے تیرہ جولائی کو جمعہ کا روز ہے۔ نماز جمعہ تک تین ساڑھے تین گھنٹوں میں پولیٹیکل ایجنٹ (مخفف پی۔ اے) جناب فقیر محمد بلوچ بار بار استفسار کے باوجود کوئی جواب نہیں دے سکے۔قصبے کی ہر مسجد میں تقاریر کاموضوع تحریف قرآن ہے۔
شام تک پی۔ اے ژوب ہوم سیکرٹری سے تحریف شدہ قرآن کے نسخوں کی ضبطی کاحکم حاصل نہیں کرسکے۔ لوگوںمیں اضطراب بڑھتا چلا جارہاہے۔ لوگ حیران ہیں۔ اس جائز بات کا حکم دینے میں کیا چیز مانع ہے؟ غالباً صورت یہ ہے کہ صوبائی انتظامیہ کی طرف سے التواء کے ذریعے معاملہ نمٹانے کا حکم ہے۔ شام تک عوام کا اضطراب اشتعال میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ وہ مرزائیوں کو ضلع سے نکال باہر کرنے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ پشتون خوا کے جواں سال رہنما حافظ عبدالغفور اور نوجوان عالم مولوی عبدالرحمن لائوڈ سپیکر پر بازاروںمیں اعلان کرتے ہیں کہ کل صبح آٹھ بجے ظریف شہید پارک میں جلسۂ عام ہوگا۔ عوام کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوںاور کارکنوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔
سیاسی اختلافات ختم
چودہ جولائی کی صبح وادیٔ ژوب پر چمکتا سورج فورٹ سنڈیمن کے مختصر سے ظریف پارک اور اردگرد کی سڑکوں پر عوام کا جم غفیر دیکھتا ہے۔ مقامی گورنمنٹ کالج اور سکول حافظ عبدالغفور اور مولوی عبدالرحمن کی اپیل پر بند ہیں۔ ظریف پارک سے میل بھر دور واقع کالج ہائی سکول کے طلبہ چلے آرہے ہیں۔ اس جلسہ میں حزب اختلاف کی سب جماعتیں شرکت کررہی ہیں۔ نیپ پشتون خواہ (اینٹی اچکزئی گروپ) جس کا نیپ اورجمعیت سے حد درجہ سیاسی اختلاف ہے۔ بھی