حضرت مرزاصاحب کا عشق رسول
۸؍اپریل ۱۹۴۹ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں: ’’ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بھی یہ نظارہ دیکھا کہ ایک شخص ہمارے سامنے اٹھا اور خدا کے لئے اسی عشق اور محبت کا جذبہ ہم نے اس کے اندر دیکھا جس کی طرف محمد رسول اﷲﷺ کی تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ خدا جانتا ہے اسی جذبہ کی ایک جھلک… ان آنکھوں سے ہم نے حضرت مرزاصاحب میں دیکھی جس کا اصل سرچشمہ ہمارے پیغمبرﷺ ہیں۔ کس طرح دیکھا؟ گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آپ کو آتے ہیں اور آپ ہنس کر فرماتے ہیں کہ ہم نے انہیں ایک بوری میں ڈالنا شروع کیا تھا۔ مگر وہ بہت جلد بھر گئی۔ اس لئے اس کو بھی چھوڑ دیا۔ لیکن وہی شخص جو اپنے لئے گالیوں کی پرواہ تک نہیں کرتا وہی شخص جو اپنے متعلق گالیوں کو اس فراخدلی سے سن لیتا ہے جب نبی کریمﷺ کے متعلق کوئی ایسا خط آجائے یا کوئی مضمون شائع ہو جس میں آپ پر حملہ ہو تو اس کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور چین نہیں لیتے جب تک اس کا جواب نہ دے لیں۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۴۹ئ)
ملاحظہ ہو کہ مرزاقادیانی کے عشق الٰہی کا راگ کس زور شور سے الاپا جارہا ہے اور ثبوت یہ دیا ہے کہ گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آپ کو آتے ہیں اور آپ ہنس کر فرماتے ہیں کہ ہم نے انہیں ایک بوری میں ڈالنا شروع کیا تھا۔ مگر وہ بہت جلد بھر گئی۔ اس لئے اس کو بھی چھوڑدیا۔ لیکن وہی شخص جو اپنے لئے گالیوں کی پرواہ تک نہیں کرتا وہی شخص جو اپنے متعلق گالی کو اس فراخدلی سے سن لیتا ہے جب نبی کریمﷺ کے متعلق کوئی ایسا خط آجائے یا کوئی مضمون شائع ہو جس میں آپ کی ذات پر کوئی حملہ ہو تو اس کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور چین نہیں لیتے۔ جب تک اس کا جواب نہ دے لیں۔ اﷲ! اﷲ!
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
مولوی صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ کیا وہ اتنا بھی نہیں سوچ سکتے کہ آخر دنیا اس لچر اور پوچ بیان پر کیا کہے گی۔ اس لاف وگزاف پر حقیقت حال سے باخبر لوگ کتنا مضحکہ اڑائیں گے۔ آخر اس صریح غلط بیانی اور فضول کذب ودروغ پر مولوی صاحب کو کچھ شرم آنی چاہئے۔
پہلا جھوٹ
ان گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط میں سے کسی ایک کی بھی نشاندہی کی جاسکتی ہے؟ کیا ہمارا یہ چیلنج قبول کیا جاسکتا ہے کہ مرزاقادیانی سبّاب اعظم نے جن اکابر دین اور علماء ومشائخ