کرسکیں۔ اور عوام کسی مصلحت کی بناء پرحکومت کے ساتھ کھلی جنگ پر آمادہ نہ ہوں اور متشدد تصادم بھی شروع نہ کرنا چاہیں تو ایسی صورت حال میں عوام یہ چارۂ کار بھی اختیار کرسکتے ہیں کہ کسی ایک قانون کی پرامن اور اصطلاحی نافرمانی سے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کریں۔ حکومت جو ووٹ بیلٹ میں ڈال کر فیصلہ نہیں کرنے دیتی۔ ووٹر جیل میں داخل ہوکر انہی ووٹوں کا شمار دنیا کی رائے عامہ پر ظاہر کردیں اور اس اخلاقی دبائو سے حکومت کو اپنے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کردیں۔
پرامن سول نافرمانی مسلمہ جمہوری سیاسی طریقہ کار ہے
پرامن سول نافرمانی کایہ طریقہ کار برصغیر ہندو پاکستان میں ایک ایسے مسلمہ سیاسی طریقہ کار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جس کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔ غالباً دونوں ڈومینینون میں لکھے ہوئے آئین کا کوئی اصول اتنا پرانا اور ایسا مسلم نہیں جیساکہ پرامن سول نافرمانی کا اصول۔ کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں کے آئین خودا سی سول نافرمانی سے حاصل کی ہوئی، آزادی کے مرہون منت ہیں۔ تاریخ کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ حصول آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں جن سیاسی لیڈروں نے پرامن سول نافرمانی کے نام پر انگریز سے آزادی کے اختیارات حاصل کئے تھے۔ جب خودا نہوں نے اپنے عوام کے بعض حقوق کو دبانا چاہا اورعوام نے اپنے مطالبات ان لیڈروں سے منوانے کی خاطر پر امن سول نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ تو ان لیڈروں نے ایک الٹی زقند لگائی اور یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ سول نافرمانی تو ہمارے لئے انگریز کے خلاف جائز تھی۔ اب جب ہم حاکم بن چکے ہیں تو عوام کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ خود ہمارے خلاف بھی یہی ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیں۔ انگریز بیرونی حاکم تھا۔ ہم ملکی حاکم ہیں۔ لہٰذا انگریز کے خلاف سول نافرمانی آزادی کے مترادف تھی۔ ہمارے خلاف سول نافرمانی وطن سے غداری اور بغاوت کے مترادف ہے۔
آئین کے تحت وزارت بدلنا عوام کا جمہوری حق ہے
یہ منطق اس قابل نہیں کہ اس کا کوئی جواب دیا جائے لیکن یہ نامناسب نہ ہوگا کہ امریکہ کے ۴؍جولائی ۱۷۷۶ء کے تاریخی اعلان آزادی سے ایک پیراگراف ان لوگوں کی شرح صدر کے لئے نقل کرایا جائے۔ جن پر آیات قرآنی اور فطری عدل وانصاف کے تقاضوں سے زیادہ اثر مہذب ممالک کی آئینی روایات کا ہوا کرتا ہے۔