چاہتے ہیں۔ جو ہمیں پسند ہے اورجس کی ہمارے دل میں قدر ہے۔ اس کی تفصیلات وقت گزرنے سے ہمیں بھول نہ جائیں۔ اس لئے کہ جن کو وہ تفصیلات یاد ہیں۔ وہ انہیں دہرائیں۔ ہم ایک مرتبہ پھر یہ دیکھیں کہ جس شے کی ہم یادگار منا رہے ہیں۔ وہ ہمیں کیوں محبوب تھی؟ اس کا کون سا پہلو ہمیں عزیز تھا؟ مدت گزر جانے کے بعد بھی ہم کیوں اسے بھولنے پر آمادہ نہیں؟ اس یاد کو تازہ کرنے سے کیا فائدہ ہے اور جس مقصد کی خاطر وہ شے ہمیں عزیز تھی۔ بدلے ہوئے حالات میں وہ مقصد کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟
تحریک کیوں شروع ہوئی؟
فروری۱۹۵۳ء کے آخر میں کراچی اور لاہور سے تحریک تحفظ ختم نبوت نے تین مطالبات کو خواجہ ناظم الدین کی مسلم لیگی وزارت سے منوانے کی خاطر راست اقدام کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ تحریک کی ابتداء ایک مجلس عمل نے کی تھی۔ جس نے یہ پہلے سے بتا دیا تھا کہ تحریک کا مقصد تشدد یا قانون شکنی نہیں۔ بلکہ اس وزارت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا ہے۔ جو رائے عامہ کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی۔ خود اپنی جماعت کے فیصلے پر بھی عمل نہیں کرتی اور جس نے سوائے راست اقدام کے اور کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا۔ جس کے ذریعے یہ تین مطالبات منوائے جاسکیں۔ نہ ہی یہ وزارت ملک کا آئین مکمل کرنے پر آمادہ تھی۔ آئین کی تکمیل کی صورت میں عام انتخابات کا بھی امکان نہ تھا۔ جہاں رائے عامہ آئینی طریقے سے اپنے مطالبات پورے کرواسکتی۔
وہ تین مطالبات یہ تھے:
اوّل… سرظفراﷲ کو وزارت خارجہ سے ہٹا دیا جائے۔ کیونکہ وہ اپنے اس مذہبی عقیدے کا خود اقرارکرچکے ہیں کہ برطانوی حکومت سے وفاداری ان کے دین و ایمان میں داخل ہے اور جو شخص کسی غیرمملکت کی حکومت سے شرعی وفاداری اپنے ایمان میں داخل سمجھتا ہو وہ پاکستان کی آزاد مملکت میں وزارت خارجہ جیسے اہم عہدے پر متمکن رہنے کا ہرگز اہل نہیں۔
دوسرا… مطالبہ یہ تھا کہ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک وہ ہر مسئلہ میں جناب خاتم النّبیینﷺ کی تعلیمات کو آخری حجت تسلیم نہ کرے اور حضور سرور کائناتؐ کی تعلیمات میں سے کسی کی تفسیر، تعبیر یا تاویل کا سوال پیدا ہو تو مسلمانوں کی کثرت رائے کے فیصلے کی پابندی کو اپنے لئے ضروری نہ سمجھے۔ پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا ہے کہ یہاں اسلام کی