جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر ہیں اور ایمان عبارت ہے۔ کفر سے بغض وعداوت سے۔ چنانچہ حضرت مولانا کے خون کا ہر قطرہ آج نہیں بلکہ اس وقت سے جب کہ فرنگی اقتدار واستعمار کا آفتاب نصف النہار پوری تیزی اور تمازت سے چمک رہا تھا اور وقت کے نبی اس چڑھے سورج کو خدا مان کر اس کی پوجا پاٹ میں مستغرق تھے۔ اس کے تشدد واستبداد کو نظر انداز اور پامال کر کے انگریز اور انگریز کی خود کاشتہ نبوت سے بغاوت ونفرت میں متحرک ومضطرب ہے اور اسی تڑپ کا نتیجہ ہے کہ آپ نے دور حاضر کے اس سب سے بڑے فتنہ کے خلاف جو مسلسل جہاد کیا ہے اس کی نظیر عرصہ تقریر وخطابت میں تو شاید مل جائے لیکن دنیائے تحریر وصحافت میں ہرگز نہیں مل سکتی۔ شورش کاشمیری سے مولانا نے کیا خوب فرمایا ہے۔ ’’اب ہم لوگ ایک تماشا ہیں اور آپ تماشائی۔ ہمارا زمانہ بیت گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی قلم ودوات کے وہ معرکے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ اب تو قافلہ حیات سکون کے ساتھ اپنا سفر پورا کر رہا ہے۔ ہمارے وقت کا آفتاب ڈوب گیا اور اس زمانہ کی صحبتیں لیل ونہار کے ساتھ ختم ہوگئیں۔‘‘
اب جب کہ قلم اور دوات کے وہ معرکے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ ہم انہی معرکوں کے زمانہ کی ایک نظم عنوان بدل کر اپنے اس خاص نمبر کے زیب عنوان کر رہے ہیں۔ اس نمبر کے پس منظر کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا مولانا نے یہ نظم اسی نمبر کے لئے موزوں فرمائی ہے۔
کفر کاجھنڈا کریں گے آج مرزائی بلند
ہم بھی نکلیں ہاتھ میں لے کر علم اسلام کا
غیب سے کانوں میں پہنچی ہے یہ اڑتی سی خبر
قادیاں کے سر پہ پھٹنے کو ہے بم اسلام کا
سر چھپائیں گے کدھر جاکر پرستاران کفر
جب عرب اسلام کا ہے اور عجم اسلام کا
دل گواہی دے رہا ہے ایک دن اس دیس میں
بھرنے والے ہیں تمام انسان دم اسلام کا
سر کو بیچا اور خریدی اپنے مولا کی رضا
اس تجارت ہی سے قائم ہے بھرم اسلام کا
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
مرزاغلام احمد اور عشق خدا ورسول
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
از: مولانا سید نور الحسن بخاری
اخلاق وروحانیت کے لئے کتنا جانگسل اور روح فرسا ہے یہ حادثہ! کہ صرف رائی کا پربت اور پرکا کوّا بنا کر پیش کیا جائے۔ بلکہ نرے جھوٹ کو بالکل سچ بنا دیا جائے۔ شرافت