آج ہم فخر سے سر اونچا کرکے کہتے ہیں کہ روسی اور امریکی بلاک کے مقابلے میں انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اسلامی بلاک بننے کا امکان موجود ہے۔ ذرا غور کرواگر بدر وحنین اور احد واحزاب کے وہ شہداء اپنی جانیں نچھاور نہ کرتے جن کی تعداد شاید انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے تو آج ہمارا یہ اسلامی بلاک کدھر ہوتا؟ صرف یہی نہیں۔ اس تیرہ سو سال کی مدت میں کیا کیا سلطنتیں بنیں اور بگڑیں، چشم فلک نے کیا کیا عظمتیں ابھرتی ہوئی دیکھیں۔ تہذیب وتمدن اور علوم وفنون نے دہلی، کابل، بغداد، قاہرہ اور قرطبہ میں میں کیا کیا بلندیاں حاصل کیں۔ نہ معلوم روز قیامت تک اسلامی تمدن ابھی مزیدکیا کیا عروج حاصل کرتا ہے۔
کیا یہ سب کارنامے، یہ سب فضیلتیں، اگر ہم محض ان کے مادی پہلو پر ہی توجہ دیںا ور تھوڑی دیر کے لئے ان شہداء کی ان روحانی عظمتوں سے قطع نظر بھی کرلیں جو میرے اور آپ کے ایمان کے مطابق ان تمام دنیاوی دولتوں سے زیادہ پر شکوہ ہیں۔ تو کیا یہ تاریخ کے تمام درخشندہ صفحات ان چند شہداء کی ذات میں اسی طرح مضمر نہ تھے۔ جس طرح شاہ بلوط کا ایک تناور اور عظیم درخت ایک رائی کے برابر بیج میں چھپا ہوتا ہے۔ صدیوں تک لوگ اس کے سائے میں بیٹھتے ہیں۔ اس کی ایک ایک شاخ سے شاندار محلات کی چھتیں تعمیر ہوتی ہیں۔ فرنیچر بنتے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب کچھ اس ننھے بیج کی قربانی کے بغیر ہوسکتا تھا؟ جس نے اپنی جان نچھاور کردی تاکہ ان عظمتوں کو جنم دے سکے۔
پاکستان کے اصل معمار شہداء تھے
خود پاکستان کی گزشتہ تاریخ پر ایک نگاہ ڈالئے۔ ابھی ۲۸؍سال ہی تو گزرے ہیں کہ اسی شہر میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہوگئی تھی کہ ایک گستاخ ہندو نے رنگیلا رسول نامی کتاب شائع کرکے خاتم النّبیینﷺ کے ناموس پر ہاتھ بڑھانے کی جرأت کی تھی۔ ملک کا قانون ملت اسلامیہ کے اس مرکز کو اور خود کو بچانے سے انکار کرچکا تھا۔ ایک غریب بڑھئی کا نحیف لڑکا اٹھاا ور اس نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو بڑی بڑی علم دین رکھنے والی شخصیتوں اور بارسوخ سیاسی لیڈروں کے بس کا روگ نہ رہا تھا۔ اس ایک شہید کی کوشش سے یہ نتائج برآمد ہوئے کہ قانون بھی بدل گیا۔ عدالت عالیہ کے فیصلے بھی بدل گئے اور جو مسلمان اقلیت کی پوزیشن میں اپنے رسولﷺ کے ناموس کے تحفظ کے لئے مطالبات کیا کرتے تھے۔ انہیں ایک جداگانہ قوم کی حیثیت میں ایک مستقل وطن کے مدعی ہونے کا حوصلہ مل گیا۔