ہماری قومیت کی بنیاد عشق ناموس رسولﷺ ہے
اب ذرا ایک لمحہ کے لئے غور کرو کہ یہ سارے رشتے اور یہ سارے بندھن کس کے واسطے سے قائم ہیں۔ کیا یہ ہمارا پیاراا ور آخری نبیﷺ ہی نہیں جس نے ہمیں سکھایا ہے کہ اس کائنات کا ایک رب بھی ہے۔ اور کیا اسی نے ہمیں آگاہ نہیں کیا کہ قرآن اس برتر اﷲ کی بھیجی ہوئی کتاب ہے۔ اور یہ قرآن نہیں جس کے بتائے ہوئے دستور سے خاندان قائم رہتے ہیں۔ ان نکات کو فلسفیانہ موشگافیاں نہ سمجھو۔ ذرا سوچو اگر نبیﷺ کا نام بیچ سے اٹھ جائے تو وہ کیا حد ہوگی۔ وہ کون سی دیوار ہوگی جو تمہیں پٹیل، تارا سنگھ یا نہرو سے جدا رکھے گی اور اگر تم نہ ہوگے تو پاکستان کہاں ہوگا؟ اور اگر پاکستان نہ ہوگا تو یہ حکومت کہاں ہوگی اور قوی غیرت کس شے کا نام ہوگا۔ پھر اگر یہ موٹی بات ہے کہ ان سب رشتوں اور ان تمام وابستگیوں کی جز خاتم النّبیینﷺ ہیں۔ تو جو طاقت تمہیںا س نبی سے جدا کرتی ہے۔ وہ کیا تمہارے ماں، باپ، بھائی، بہن، تمہاری جائیداد اور تمہاری زندگی کی ہر اس خوشی سے تمہیں محروم نہیں کرنا چاہتی۔ جس سے تمہاری دنیاوی زندگی کے یہ سہارے بھی قائم ہیں۔
ایسی شیطانی قوت سے جو تمہیں تمہارے نبیﷺ سے بیگانہ کرنے کے لئے کوشاں تھی۔ بچانے کی خاطر جن نوجوانوں نے اپنا شباب قربان کردیا جن بوڑھوں نے بڑھاپے میں جواں ہمتی دکھائی اور جن بچوں نے لڑکپن میں پیرانہ سالی کی دور اندیشی کا ثبوت دیا گیا۔ ان تمام شہداء کے متعلق یہ کہنا کسی قسم کا مبالغہ ہوگا کہ ان کی ہمت کے بغیر تم دنیا کی ہر نعمت سے بھی محروم ہوجاتے؟
دنیاکی سرسبزی خون شہیداںکی سرخی سے سیراب ہے
موسم آئیں گے اور رتیں بدل جائیں گی۔ باران رحمت ہوگی اورشہداء کی قبروں کو دھوکر بہہ جائے گی۔ خزاں کے پتے ہوا سے اڑیں گے۔ اور قبرستانوں میں بکھر جائیں گے۔ موسم بہار میں شبنم اپنے ٹھنڈے آنسوان مزارات پر ٹپکائے گی جن کو شاید کبھی لوح مزار بھی نصیب نہ ہو۔ لیکن کیا ہم اور ہماری آئندہ نسلیں ان شہداء کا دنیاوی احسان بھی کبھی فراموش کرسکتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی جانیں دیں۔ تاکہ تم زندہ رہو۔ جنہوں نے موت کی تلخی چکھی تاکہ تم نشوونما کی مٹھاس سے بہرہ ور ہوسکو۔ جنہوںنے اس دنیا میں اپنا سب کچھ تج دیا۔ تاکہ تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ بھی محفوظ رہے اور آئندہ تم مزید بھی حاصل کرسکو۔ خدانخواستہ اگر ہمارے اندر کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے جومرنے کے بعد ان شہداء کی شفاعت سے رحمتیں حاصل کرنے کی توقع سے محروم