فریب خوردگی یا فریب کاری؟
شیشہ مے بغل میں پنہاں ہے
لب پہ دعویٰ ہے پارسائی کا
مولوی صاحب کی ان صریح غلط بیانیوں، دروغ بافیوں اور صاف کذب وزور سے قطع نظر، اب ہم جناب مولوی صاحب سے یہ دریافت کرتے ہیں کہ کیا قرآن کے ورد اور قرآن سے عشق کے لئے یہی کافی ہے کہ روزانہ اس کی تلاوت کر لی جائے اور اس کی عظمت کے لئے یہی بس ہے کہ اسے آتھم کے ساتھ مباحثہ میں پیش کر دیا جائے۔ کیا مولوی صاحب بایں ہمہ قرآن دانی، قرآن کے موضوع اور مقصد سے ہی اتنے بے خبر اور اس بارے میں خود فریب نفس میں مبتلا ہیں یا سب کچھ جان بوجھ کر دنیا کو فریب دے رہے ہیں؟ بہرحال ’’وما قدرواﷲ حق قدرہ‘‘
کیا ایک نبی یا مجدد کے واسطے قرآن کریم اس واسطے آیا ہے کہ صرف اسے پڑھ لیا جائے یا اس کو ہاتھ میں لے کر مخالفین کو چیلنج کیا جائے۔ باقی رہی ساری عملی زندگی سو اس میں پوری شدومد کے ساتھ قرآن کے حکم کا کھلا خلاف کیا جائے۔ اخلاق، سیاست، تمدن، معاشرت الغرض زندگی کے کسی شعبہ میں قرآن کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے۔ اسلام کے اس نظام حیات کو جس کو قرآن اس دنیامیں لایا ہے۔
گلدستۂ طاق نسیاں بنادیا جائے اور اس کے سولہ آنے الٹ اور بخط مستقیم خلاف انگریزی نظام کے گورے بھورے بت کو ساری عمر چوما چاٹا جائے۔ انگریزی حکومت کی اطاعت کو عین اسلام قرار دے کر گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کو اسلام اور خدا اور سول کی سرکشی گردانیں۱؎ اور خود اسلام اور خدا اور رسولﷺ کی اطاعت سے مرتے دم تک سرکشی کریں۔ فرنگی آئین کی بدل وجان اطاعت کو تو شرائط بیعت۲؎ میں جگہ دی جائے اور اسلامی آئین کو پس پشت ڈال دیا جائے۔
۱؎ ’’سومیرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کرے۔ دوسرے اس سلطنت کے جس نے امن قائم کیا ہے۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔ اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔‘‘ (اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص ج۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
۲؎ ’’اطاعت گورنمنٹ… میرا اصول ہے اور یہ وہی اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرائط بیعت میں داخل ہے۔ چنانچہ پرچہ شرائط… کی دفعہ چہارم میں ان ہی باتوں کی تصریح ہے۔‘‘ (ضمیمہ کتاب البریہ ص۹،خزائن ج۱۳ ص۱۰)