ساری کائنات اور پوری انسانیت سے قطع نظر! صرف محدود نظر سے پاکستان ہی کو لیجئے۔ بے شک یہ پاکستان محمد علی جناح نے حاصل کیا۔ مگر کس کے نام پر؟ کیا اس حقیقت کے باور کرنے میں کسی کو ذرہ بھر تأمل ہوسکتا ہے کہ بارگاہ رب العزت سے پاکستان کی بھیک قائداعظم کی جھولی میں ڈالی گئی تو محمد رسول اﷲﷺ کے نام پر! پھر کیا محمد رسول اﷲ کے مقدس نام پر حاصل کی گئی دولت خداداد پاکستان کے طول وعرض میں محمد رسول اﷲﷺ کی توہین برداشت کی جائے گی اور حضورﷺ کی شان اقدس میں گستاخی روا رکھی جائے گی؟
مرزائیت کیا ہے؟
کیا یہ اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ غلام احمد کون ہے؟ کیا یہ محمد مصطفیٰﷺ کا دشمن، مخالف، معاند، حریف، مقابل اور موہن نہیں؟
معزز معاصر ’’مغربی پاکستان‘‘ لاہور میں حضرت مولانا مرتضیٰ احمد خان صاحب نے یہ لکھتے ہوئے حقیقت کی کیا خوب ترجمانی فرمائی: ’’یہ حقیقت کسے معلوم نہیں کہ فرقہ ضالہ مرزائیہ کے لوگ اور قادیانی نبی کے پیرو اپنے جلسوں میں اور اپنی گفتگوؤں میں مسلمانوں کے ہادی ومولا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ انداز اختیار کرنے کے عادی ہیں۔ بلکہ ان کے دھرم کی بنیاد ہی حضرت ختمی مرتبت(ﷺ) کی شان خاتمیت کی تنقیص کے عقیدہ پر رکھی جاچکی ہے۔‘‘
سیالکوٹ کے جس حادثہ فاجعہ سے متاثر ہوکر معزز معاصر نے یہ سطور قلمبند کی ہیں۔ اس میں مرزائی اﷲ دتہ جالندھری نے آنحضرت خاتم الانبیاء والمرسلین کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے یہاں تک بکواس کی کہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا دور ختم ہے۔ اب مرزاقادیانی کی نبوت کا زمانہ ہے۔
سیالکوٹ کے غیور مسلمانوں کی دینی غیرت اور ایمانی حمیت حضورﷺ کی ذات اقدس پر حملہ کو برداشت نہ کر سکی۔ انہوں نے قربانی دی اور وہ ملت کی سرفروش سراپا ایثار دینی جماعت مجلس احرار کی قیادت میں اس جلسہ کو بند کرا کے رہے۔ مسلم پریس نے متفقہ طور پر اس بکواس کے خلاف پرزور صدائے احتجاج بلند کی تو اﷲ دتہ قادیانی نے یہ بیان شائع کیا: ’’۱۵؍جنوری کو سیالکوٹ میں جو ہنگامہ ہوا اس کے لئے یہ وجہ جواز تراشی گئی ہے کہ خاکسار نے اپنی تقریر میں سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شان میں توہین آمیز کلمات کہہ دئیے تھے۔ جنہیں احراری