قادیانیوں کو ’’ہندو‘‘ قومیت کے علمبردار ذہین لوگوں کی تائید وحمایت بھی حاصل رہی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’قادیانی نبوت پر ایمان لانے والوں کا قبلہ ہندوستان ہوگا نہ حجاز۔‘‘ اور اس تحویل قبلہ کے جو دوررس نتائج ہوسکتے ہیں وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔ (قادیانیت ص۱۷۵، طبع لاہور ۱۳۸۶ھ)
مولانا علی میاں صاحب ہی نے ایک دوسری کتاب ’’النبی الخاتم‘‘ بھی لکھی ہے جس میں اس فتنہ کے بعض اور اہم پہلو بھی سامنے لائے گئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ختم نبوت کا عقیدہ جن ملتوں میں نہیں ہے (مثلاً عیسائیت) وہ اس درجہ انتشار اور پراگندگی کا شکار بنیں کہ ہر روز نت نئے پیغمبروں سے تنگ آکر وہ ان سب کی تکذیب ہی میں عافیت سمجھنے لگیں۔ اس پر مولانا نے ان ملتوں کے بعض ذہین لوگوں کی تصانیف شہادت میں پیش کیں۔
(تفصیل کے لئے دیکھئے النبی الخاتم (عربی) از ص۵۵تا۶۴)
آخر میں ’’مسک الختام‘‘ کے طور پر دارالعلوم کے اس عظیم فرزند کے ذکر سے قلم کو عزت بخشنا اور مقالہ کا حسن اتمام مقصود ہے۔ جس نے نہ صرف زبان قلم سے اس فتنہ کا مقابلہ کیا بلکہ اس کی سرکوبی کے لئے سربکف میدان میں اتر پڑا کہ پھر جس کی قلندرانہ جسارت کی بناء پر ان فتنہ ساموں کا عرصۂ حیات اسی سرزمین میں تنگ ہوگیا۔ جو سب سے زیادہ ان کے لئے فراخ اور اپنے سینہ میں وسعت رکھتی تھی میری مراد حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے ہے کہ جن کی مساعی جمیلہ اور تحریک ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ (کہ جس کے آخری اور فیصلہ کن دور میں وہ قائد تھے) کی بدولت پہلے پاکستان میں، پھراس کی اتباع میں عالم اسلام کے دیگر ملکوں میں قادیانیوں کو غیرمسلم اور کافر قرار دیاگیا۔ ’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب‘‘
رأس الاذکیاء
حضرت مولانا سید احمد حسن محدث امروہیؒ اور مرزاقادیانی
از: مولانا مفتی نسیم احمد صاحب فریدی امروہی
حضرت مولانا سید احمد حسن محدث امروہیؒ (م ۱۳۳۰ھ) حضرت قاسم العلوم والمعارف کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ اور حضرت نانوتویؒ کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔ تحریر وتقریر میں اپنے استاذ معظم سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ اس لئے ان کو