قرآن مجید میں بھی تمہیں مسلمان ہی کا نام دیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ خاتم النّبیینﷺ تمہارے منصب پر شہادت دیں اور تم انسانیت کے مرتبے کی شہادت دو۔}
دوسرے مقامات پر ملت ابراہیمی کو دوسری قوموں سے ممتاز کرنے والے اوصاف کی یوں تشریح کی گئی ہے کہ: ’’قدکانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم والذین معہ اذ قالوا لقومہم انا برآء ومنکم ومما تعبدون من دون اﷲ کفرنا بکم وبدا بیننا وبینکم العداوۃ والبغضاء ابداً حتیٰ تؤمنوا باﷲ وحدہ…الخ (الممتحنہ۴)‘‘{ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی سنت کی پیروی مسلمانوں کے لئے بہترین دستور ہے۔ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا: اے کافرو! تم اﷲ کے سوا جن کی پرستش کرتے ہو ہم ان سے اور تم سے بے تعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم تمہارا انکار کرتے ہیں۔ ہمارے اور تمہارے مابین ہمیشہ عداوت اور بغض رہے گا۔ جب تک کہ تم ایک خدا پر ایمان نہیں لاتے۔}
کافر خداکے سواجن کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کی وضاحت کرتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام نے جس رائے کا اظہارکیا وہ قرآن مجیدمیںایک مقام پر یوں بیان کی گئی ہے:
’’وقال انما اتخذتم من دون اﷲ اوثاناً مودۃ بینکم فی الحیوٰۃ الدنیا ثم یوم القیمۃ یکفر بعضکم ببعض ویلعن بعضکم بعضا ومأوٰکم النار ومالکم من ناصرین (العنکبوت۲۵)‘‘
ابراہیم علیہ السلام نے کافروں کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تم لوگ خداسے جدا جن بتوں کی پرستش کرتے ہو تمہاری اس پرستش کی بنیاد بتوں سے بھی کسی مخلصانہ وابستگی پر نہیں۔ بلکہ دراصل تم کو دنیا کی زندگی کا لالچ ہے اور دنیا سے یہ مشترکہ لالچ رکھنے کے باعث تمہارے اندر ایک باہمی لگائو پیدا ہوگیا ہے اور اس لگائو کی مجسم شکل تم نے بتوں کو بنالیا ہے۔ لیکن تمہاری اس وابستگی کا پول قیامت کے دن کھل جائے گا۔ (جب دنیاوی تعلقات کے رشتے کٹ چکے ہوں گے۔) تب تم ایک دوسرے سے ان تعلقات کا انکار کرو گے اور باہم لعنتیں بھیجو گے۔…الخ
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
غرض مسلمان اس لئے ایک ملت ہے کہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کا دین قبول کرلیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے کائنات کے حقائق پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ ستارے چاند نکلنے پر مدھم پڑ جاتے ہیں۔ چاند کی روشنی سورج کی روشنی سے زائل ہوجاتی ہے۔ اور خود سورج بھی