شریک ہے۔ حافظ عبدالغفور پشتون خوا کے رہنما ہیں۔ ان کے مرکزی صدرعبدالرحیم ایڈووکیٹ بھی جلسے میں حاضر ہیں۔ شہر کی جامع مسجد کے خطیب مولانا میرک شاہ شہر کے سب علماء سمیت موجود ہیں۔ فورٹ سنڈیمن میں مؤثر تینوں جماعتوں پشتون خوا، جمعیت اور نیپ کے کارکنوں کی اپیل پر پورا بازار بند ہوچکا ہے۔ صرف برسراقتدار پیپلزپارٹی بحیثیت جماعت کے شریک نہیں۔ البتہ اس کے اکا دکا کارکن جذبہ ایمانی سے مجبور جلسے میں حاضر ہیں۔
حافظ عبدالغفور کے قریبی رفیق جناب محمد فاروق کی بیٹھک سے پلے کارڈ اور بینرز لائے جاتے ہیں۔ جنہیں چند کارکن وہاں رات بھر تیار کرتے رہے ہیں۔ ان پر مرزائیوں کی تحریف شدہ قرآن کی فوری ضبطی، مرزائیوں کے متعلق مختلف مطالبات در ج ہیں۔ پارٹیوں کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ فورٹ سنڈیمن کے تمام عوام ناموس مصطفی کی خاطر یک جان ویک قالب ہوچکے ہیں۔ جلسے کے اختتام پر ایک قرارداد منظورکی جاتی ہے جس میں تین مطالبات ہیں۔
۱… کلام اﷲ کے مرزائی نسخوں کی فوری ضبطی کی جائے۔
۲… مرزائیوں کو ۲۴؍گھنٹے کے اندر ضلع ژوب سے نکال دیاجائے۔
۳… مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
بھائی کی ہلاکت
جلسے کے بعد عوام نے جلوس کی صورت اختیار کرلی اور شہر کی شرقی جانب بلند پہاڑی پر واقع پولٹیکل ایجنٹ کے کیسل Castle رہائشی قلعہ کو چلے۔ جلوس بازار سے نکل چکا تھا کہ پیچھے چلنے والے ایک سو کے لگ بھگ نوجوان تھانہ بازار میں مڑ گئے جہاں ایک بہائی عبدالرزاق غفوری کی دکان کھلی تھی۔ اس بازار میں کھانے پینے والی اشیاء کی دکانیں بھی کھلی تھیں۔ لیکن ہڑتال کے لئے طے شدہ اصول کے مطابق یہ دکانیں کھلی رہ سکتی تھیں۔ جبکہ ایرانی بہائی پرچون کی دکان کا مالک تھا۔ نوجوان اس دکان کو دیکھ کر مشتعل ہوگئے۔ کہا جاتا ہے جب انہوں نے اسے دکان بندکرنے کے لئے کہا تو اس نے توقف کیا اور تاویل سے انہیں ٹالنا چاہا اور یہی چیز ان کی موت کا سبب بن گئی۔
مشتعل نوجوانوں کے اس ہجوم نے دکان کے باٹ اور بوتلیں مار مار کر اسے ہلاک کردیا۔ جلوس کی قیادت کرنے والے رہنمائوںمیں سے اکثر کو اس کا علم تک نہ ہوا۔ حتیٰ کہ جب جلوس ضلعی دفاتر کی پہاڑی کے دامن میں واقع ’’چلڈرن پارک‘‘ پہنچا تو پولٹیکل ایجنٹ جناب فقیر محمد بلوچ نمودار ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ جلوس کے ایک حصے نے ایک بہائی کو مار ڈالا ہے۔