بھی کئی حکومت وقت کا ساتھ دیتے تھے۔
برعکس اس کے ہندوئوں کے کارخانے اور اخبارات ملک کے اکثر حصوں میں قائم ہوچکے تھے۔ اس لئے گو گاندھی ایک ماہ بعد تحریک آزادی میں مولانا محمد علی جوہرؒ کا پیرو بنا تھا۔ لیکن ہندوپریس نے اس کو یوں اچھالا اور اس کا اتنا چرچا کیا۔ دوسری طرف ہندومالدار طبقہ اوروکلاء نے اس کثرت سے اور اس گرمجوشی سے گاندھی کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے اس طبقے نے کہ جس کی حکومت میں رسائی تھی، مولانا محمد علی جوہرؒ سے ایسی کنارہ کشی رکھی کہ تحریک عدم تعاون گاندھی سے منسوب ہوگئی۔ گاندھی نے اس تحریک پر اپنا ہندوروغن پھیرنے کی خاطر ایک تو اہنسا کے اصول کازیادہ چرچا شروع کیا۔ جس کا مطلب عدم تشدد تھا۔ دوسرا اس نے ستیہ گرہ یعنی سچائی پرزیادہ زور دیا۔ انگریزی اخبارات نے اس تحریک کو نان کو آپریشن اور سول ڈس اوبی ڈینس (Non Co-operation & Civil Disobedience) کا نام دیا۔ ۳۲۔۱۹۳۰ء میں جب کانگریس نے دوبارہ اسی طریقے پر حکومت چلائی تو برصغیر میں یہ سیاسی طریقہ کار ایک مسلمہ سیاسی اسلوب فکروعمل کی شکل اختیار کرگیا۔
اس زمانے میں جب کانگریس کے عہدے دار انگریزی حکومت کو یہ تحریک شروع کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے تو اس وقت عدم تعاون کے مقابلے میں سول نافرمانی کی تحریک کو ڈائریکٹر ایکشن کا نام دیا گیا۔
مسلم لیگ کا ڈائریکٹ ایکشن
۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ نے پاکستان کی قرار داد منظورکی۔ ۱۹۴۷ء میں جب پنجاب کے اندر مسلم لیگ نیشنل گارڈز پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم لیگ نے بھی سول نافرمانی کی۔ کچھ عرصہ بعد صوبہ سرحد میں بھی مسلم لیگ نے ایسی ہی سول نافرمانی کی۔ قائدا عظم جب کانگریس اور انگریزوں پر قیام پاکستان کے مطالبے کو منوانے کے لئے زور دے رہے تھے۔ تو انہوں نے سارے ہندوستان میں ۲۶؍جولائی ۱۹۴۶ء کو ڈائریکٹ ایکشن ڈے بھی منوایا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ کلکتے کے اندر سچ مچ ہی ہندو اور مسلمانوں میں کچھ مدت کھلی جنگ شروع ہوگئی تھی۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ کا یہ پس منظر تھا جس میں ’’راست اقدام‘‘ کی اصطلاح نے یہ خاص مفہوم اختیار کرلیا تھا کہ جب حکومت وقت عوام کے مطالبات کو تسلیم نہ کرے اور کوئی ایسا آئینی راستہ بھی نہ چھوڑے۔ جس کے ذریعے عوام حکومت کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور