تف ہے اس ایمان اور لعنت ہے اس عرفان پر ؎
گر ولی اینست لعنت برولی
مختاری فیل مسیح موعود
پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ فخر رسل سید الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ سے بڑھ کر شان والے منشی غلام احمد خیر سے کھوتارام جتنی قابلیت بھی نہیں رکھتے اور مختاری کا جو امتحان ہزاروں ہندو سکھ پاس کر لیتے تھے وہ حضرت صاحب پاس نہ کر سکے۔ صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحب ایم۔اے لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر امیر شاہ صاحب استاد مقرر ہوئے۔ مرزاصاحب نے انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔ آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیونکر ہوتے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۵۶، روایت نمبر۱۵۰)
چہ خوب! گویا امتحان میں کامیاب ہونا تو دنیوی اشغال کا پیش خیمہ تھا۔ مگر فیل اور ناکام ہونا مدراج نبوت کا ایک درجہ اور قصر مسیحیت کا ایک ضروری زینہ ؎
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
چھوٹے میاں بشیر احمد صاحب کا یہ آخری فقرہ انگور کھٹے ہیں کا مصداق اور بہت دلچسپ ہے۔ مگر اس سے زیادہ دلچسپ بڑے میاں محمود احمد صاحب کا ارشاد ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں:
افیمی استاد کا افیمی شاگرد
’’حضرت مسیح موعود کو بھی یہ دعویٰ نہ تھا کہ آپ نے ظاہری علوم کہیں پڑھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے۔ میرا ایک استاد تھا جو افیم کھایا کرتا تھا۔ وہ حقہ لے کر بیٹھ رہتا تھا۔ کئی دفعہ پینک میں اس سے اس کے حقہ کی چلم ٹوٹ جاتی۔ ایسے استاد نے پڑھانا کیا تھا۔‘‘
(الفضل مورخہ ۵؍فروری ۱۹۲۹ئ)
گویا حضرت صاحب اس استاد سے پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے۔ بلکہ اس سے جس فن میں وہ ماہر تھا اس کا استفادہ کرتے تھے۔ چنانچہ ذیل کی روایات سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔
۱… میاں محمود احمد صاحب لکھتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود نے تریاق الٰہی دوا، خداتعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت بنائی اور اس کا بڑا جز افیون تھا اور یہ دوا کسی قدر اور افیون کی زیادتی کے بعد