تھا۔ ورنہ حقیقت حال کھل جانے پروہ لازماً تائب ہوگیا ہوتا۔ ہم اپنا خیال ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ ایک ذہین وفطین اور الحاد پسند آدمی تھا۔ جو کچھ وہ کر رہا تھا پوری طرح جان بوجھ کر کر رہا تھا۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے اور اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے کر رہا تھا۔
مرزاقادیانی کے کرتب
پہلا کرتب
جب مرزاقادیانی نے دیکھ لیا کہ پادری آتھم ان کی پیشین گوئی کی مدت نکل جانے کے بعد بھی زندہ ہے جس سے لوگوں میں ان کی بری طرح رسوائی ہورہی ہے اور اپنے لوگوں کے ٹوٹ جانے کا بھی خطرہ ہے۔ وہ سوالات بھی کر رہے ہیں تو آپ نے پینترا بدلا۔ فرمایا: ’’میری مراد صرف آتھم سے نہیں بلکہ پوری جماعت سے ہے جو اس بحث میں اس کی معاون تھی۔‘‘
(انوارالاسلام ص۲، خزائن ج۹ ص۲)
لوگوں کو احمق بنانے کے لئے پیشین گوئی کو زبردستی وسعت دے کر پادریوں کی صفوں میں نظر دوڑانی شروع کر دی۔ اس عرصہ میں ایک پادری رائٹ مر گیا تھا۔ قدرت کا نظام ہے لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں مرتے بھی رہتے ہیں۔ جیسے ہی رائٹ کا مرنا معلوم ہوا فوراً مرزاقادیانی پکار اٹھے کہ میری پیشین گوئی پوری ہو گئیں۔ پادری رائٹ مر گیا۔ ہاویہ میں جا گرا۔ اب کہئے! اسے عیاری نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟ پیشین گوئی کی گئی آتھم کے بارے میں۔ مراد لے لی جماعت۔ مر گیا رائٹ۔ مرزاقادیانی کی پیشین گوئی پوری ہوگئی۔ بہت خوب۔ کیا کہنے ہیں نبی ظلی کی دیانت وصداقت کے۔
مرزاقادیانی کو چھوڑ دیجئے۔ وہ تو چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی سے کام لے کر اپنا الّو سیدھا کر رہے تھے۔ افسوس تو ان پر ہے جو قدرت کی عطا کی ہوئی سمجھ اور روشن آنکھوں سے صحیح کام نہ لے کر مرزاقادیانی کے ساتھ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور اتنی کھلی ہوئی باتیں بھی انہیں غلط راہ سے نہیں ہٹا سکیں۔
دوسرا کرتب
سمجھے ہوں گے کہ شاید میری یہ توجیہہ لوگوں کو مطمئن نہ کر سکے۔ اس احساس سے دوسرا پینترا بدلا۔ فرمایا: ’’پیشین گوئی میں یہ بھی تو ہے کہ اگر اس نے حق کی طرف رجوع نہ کیا۔‘‘ اور اس نے رجوع الیٰ الحق کر لیا تھا اسی لئے تو نہیں مرا۔ مزید فرمایا: ’’پیشین گوئی نے اس کے دل پر اثر کیا