بجائے پچاس الماریوں والی حکومت قائم ہے اور متنبی قادیان اس کو ظل اﷲ کہہ کر من مانی مرادیں حاصل کررہا ہے۔ مگر احکام شرعیہ بدل نہیں سکتے۔ آج بھی یہ جماعت شرعاً اس سلوک کی مستحق ہے جو اس سے دورِ صحابہ کرامؓ میں کیا گیا: ’’فلن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا ولن تجد لسنۃ اﷲ تحویل‘‘
مسئلہ تکفیر اہل قبلہ
شبہ اول کے جواب میں جن صریح واقعات کا ذکر ہوا۔ ان کے سمجھ لینے سے اہل قبلہ کی تکفیر وعدم تکفیر کا مسئلہ خودبخود حل ہوجاتا ہے۔
مسئلہ کی تاریخ
اہل قبلہ سے جہاد نہ کرنے کا مشورہ سب سے پہلے حضرت فاروق اعظمؓ نے اس وقت پیش کیا جب کہ حضرت صدیق اکبرؓ مرتدین سے برسرپیکار ہونے کو تیار ہوگئے تھے۔ صحیحین کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔
حضورﷺ کے انتقال کے بعد جب صدیق اکبرؓ خلیفہ ہوئے اور عرب کے مرتدین سے جہاد کرنے کے لئے آپ تیار ہوئے تو فاروقؓ نے صدیقؓ سے کہا کہ آپ ان سے کیونکر لڑ سکتے ہیں۔ جب حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہنے والے کا جان اور مال ہم سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کے باطن کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ ہاں حقوق اسلام کے متعلق اس سے گرفت کی جاسکتی ہے۔ یہ سن کر ابوبکرؓ نے فرمایا۔ تو زکوٰۃ بھی حق مال ہے۔ پس جو شخص صلوٰۃ اور زکوٰۃ کی فرضیت میں فرق کرے گا۔ میں اس سے ضرور جہاد کروں گا۔ بخدائے لایزال! اگر انہوں نے بکری کا ایک بچہ بھی روکا جو حضور کے عہد میں دیا کرتے تھے تومیں ان سے جہاد کروں گا۔ فاروقؓ فرماتے ہیں کہ بس میں نے سمجھ لیا کہ صدیقؓ کو اس مسئلہ میں شرح صدر حاصل ہوچکا ہے۔ پس ان کی تلقین سے میں بھی حقیقت کو سمجھ گیا۔ (مشکوٰۃ)
نتیجہ
اس روایت سے صاف معلوم ہوا کہ اہل قبلہ کو ضروریات دین کا انکار کفروارتداد اور اس کے انجام بدیعنی قتل سے بچا نہیں سکتا۔