اسی بناء پر مرزا قادیانی (کتاب البریہ ص۷۸، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳) میں لکھتے ہیں: ’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں۔‘‘ حالانکہ یہ فرعون کا دعویٰ تھا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے اس کی خبر سورہ قصص میں دی ہے: ’’وقال فرعون یا ایہا الملاء ماعلمت لکم من الہ غیری‘‘ {یعنی فرعون نے کہا اے جماعت تمہارے لئے میں اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا۔} الغرض جو کچھ مذکور ہوا یہ مرزا قادیانی کے کفریات سے مشتے نمونہ ازخروار ہے۔ پس جس شخص کی یہ ایمانی حالت ہو کب وہ امام یا مجدد یا مقرب خدا بن سکتا ہے۔ نبوۃ تو بجائے خود رہی۔
مرزا غلام احمد قادیانی مراقی تھا
از جناب حکیم محمد علی صاحب مصنف ’’سودائے مرزا‘‘ امرتسری!
مرزا غلام احمد قادیانی کا قول کتاب منظور الٰہی کے ص۳۴۸ پر لکھا ہے: ’’میرا تو یہ حال ہے کہ باوجود اس کے کر دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں۔ تاہم آج کل کی مصروفیت کا یہ حال ہے کہ رات کو مکان کے دروازے بند کرکے بڑی بڑی رات تک بیٹھا اسی کام کو کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے۔‘‘
حکیم نور احمد صاحب سکنہ لودھی ننگل نے ریویو آف ریلیجنز مطبوعہ ماہ اپریل ۱۹۲۵ء کے ص۴۵ پر مرزا قادیانی کے اس دعویٰ کی طبی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’بے شک مرزا قادیانی کو مرض مراق تھا‘‘ اب مراقی مریض کے متعلق حکیم نور الدین کی تشریح ظاہر کرتی ہے کہ ’’مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔ مالیخولیا مراق میں دماغ کو ایذاء پہنچاتی ہے۔‘‘ (بیاض نور دین ج۱ ص۳۱۱)
خود مرزائی ڈاکٹر شاہ نواز صاحب اسسٹنٹ سرجن ریویو آف ریلیجنز ماہ اگست ۱۹۲۶ء کے ص۱۶ پر لکھتے ہیں کہ: ’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس کو ہسٹریا مالیخولیا یا مرگی کامرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لئے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیتی ہے۔‘‘ پس خود مرزا اور اس کے حواریوں کی تحریرات سے ثابت ہوگیا کہ مرزا قادیانی کے مختلف دعاوی کی محض مرض مراق کا نتیجہ تھے اور جس خرافات کو وہ الہامات سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ انجرۂ مراقیہ کے پیدا کردہ تخیلات فاسدہ کا نتیجہ تھی۔ جب تبخیر مراقیہ کا زور ہو تو علامات مرض بڑھ جاتی اور جب زور کم ہو تو علامات گھٹ جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے جب مرزا قادیانی کو تبخیر مراقیہ کا زور ہوتا تھا تو وہ انٹ سنٹ بولنے لگتے تھے لیکن زور کم ہونے پر وہ خود بھی اپنے اقوال پر نادم ہوجاتے تھے۔ چنانچہ (کشف الغطاء کے ص۱۲، خزائن