اسلامی تعلیمات کو ترک کردیا ہے۔ اور اس لئے ان کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ ہمارے فلاکت زدہ اور محکوم بھائیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ مخالفین اسلام نے اسلامی تعلیمات کو تضحیک واستہزاء کا موضوع سمجھ رکھا ہے۔ اس وقت ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم دنیا پر ظاہر کردیں کہ شوکت اسلامی کے احیاء کے لئے ہم آج بھی آمادہ عمل ہیں۔
مسلمانوں کی غلامی پر اظہار افسوس
عزیز بھائیو! جب میں کروڑوں مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہوں تو میرے دل میں ایک درد اٹھتا ہے۔
کاش مسلمان یہ سمجھتے کہ غلامی ان کے مذہبی احکام کے خلاف ہے۔ ترکوں کو ملک گیری کی ہوس بالکل نہیں۔ لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان غلامی کی قید سے نجات پائیں۔ اور اسلامی مقدسات پر کسی قسم کی آنچ نہ آئے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ دنیا کے مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ میں شمشیر دی ہے۔
اسلام اور جغرافیائی حدود
رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’اتفاق امتی حجۃ قاطع‘‘ تم یہ خیال نہ کرو کہ ہندوستان کہاں اور ہم کہاں۔ بلکہ اس حدیث شریف پر عمل کرو۔ کیونکہ مرد مجاہد کے لئے جغرافیائی حدود کی کوئی حقیقت نہیں۔ تمہارے اجداد کبھی دریائوں، پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں سے خوف زدہ نہیں ہوئے۔ میرے دوستو اگر کوئی موقع آیا تو تم دیکھو گے کہ تحفظ ناموس اسلام کی راہ میں سر کٹانے کے لئے میں مجاہدین کی صف اول میں شامل ہوں گا۔ تمہیں اجازت ہے کہ تم فرقہ ضالہ قادیانیہ کے استیصال کے لئے ہر ممکن اور جائز ذریعہ اختیار کرو۔ اور میں تمہیں کامیابی کی نوید دیتا ہوں۔ ’’وکانت حقاّق علینا نصر المومنین‘‘
جلسہ کا اختتام
غازی اعظم اتاترک کی تقریر کے اختتام کے بعد حافظ نور اﷲ صاحب آفندی نے قوم کی طرف سے شکریہ ادا کیا۔ اور قادیانیت اور دوسرے فتنوں کے استیصال کے لئے انجمن مدافعہ حقوق مقدسہ اسلامی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
اس انجمن کی تشکیل کے لئے یکم فروری بروز جمعہ مسجد سلطان محمد فاتح میں مسلمانوں کا اجتماع ہوا۔ (ترک نامہ نگار)