کہ قومی ملکیت مسئلے کا اصل حل ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ جس حکومت سے گندم اور چینی کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوسکتی، زرعی اراضی بھی اس کے ڈپٹی کمشروں کی قومی ملکیت بن گئی تو زعفران کی طرح پنساری کی پڑیوں میں تلاش کرنی پڑے گی۔ علیٰ ہذا القیاس صنعت کے متعلق کسی کا خیال ہے کہ ملکی صنعت کاروں پر بے جا قیود عائد ہیں اور کسی کا خیال ہے کہ ان کو ناجائز نفع کمانے کے مواقع مہیا ہیں۔ دولت اور جائیداد کی مساوی اور منصفانہ تقسیم کے متعلق بھی کمیونزم سے لے کر سرمایہ داری تک مختلف نظریات ہیں۔
میں یہاں ان میں سے کسی نظریہ کی مخالفت یا موافقت بے موقع سمجھتا ہوں۔ لیکن ایک سوال پوچھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کیا ان میں سے کوئی حل بھی اس وقت تک قابل عمل ہوسکتا ہے۔ یا اس سے کوئی مفید نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ جب تک ملک میں کوئی ایسی قوت پیدا نہ ہو جو اس حل پر واقعی کچھ عرصہ تک استقلال اور ہمت سے عمل کروا سکے۔
یہ تو نہ ہو کہ چار سال میں ایک پنج سالہ منصوبہ بنے اور چار ہفتوں میں اس کو نئی وزارت نامنظورکردے۔ مزید برآں کوئی حل اسی وقت مفید ہوسکتا ہے۔ جب ملک کے وسیع رقبوں میں اس پر عمل درآمد ہوسکے اور ملک کے مختلف طبقات کے معتدبہ عناصر دل جمعی اور حسن نیت سے اس کو پایہ تکمیل تک پہچانے پر آمادہ ہوں۔
زرعی اصلاحات بھی ختم نبوت کے سہارے ہی ممکن ہیں
یہ دونوں باتیں یعنی کسی حل پر عمل کرانے کے لئے کسی زبردست قوت کا مہیا ہونا اور ملک کے وسیع رقبوں میں غالب اکثریت کا اس حل کو خوش دلی سے قبول کرنا اس وقت تک ناممکن ہے۔ جب تک ملک کی آبادی میں کوئی مشترکہ معیار ایسا نہ ہو۔ جس کے مطابق مختلف خیالات اور مختلف دلائل کو جانچا نہ جاسکے۔
میں پوچھتا ہوں کہ پاکستان میں سوائے آخری نبیﷺ کی تعلیمات کے وہ کون سا معیار ہے جسے ملک کے ہر حصے میں ہرشخص بغیر چون وچرا کے قبول کرنے پر آمادہ ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ ہمارا ملک ایک دیہاتی ملک ہے۔ جس کی اکثر آبادی ناخواندہ ہے۔ سوائے اسلام کی اصطلاحات کے یہ لوگ نہ کوئی زبان جانتے ہیں۔ نہ کسی علم سے واقف ہیں۔ جس کی وساطت سے مسائل ان کو سمجھائے جاسکیں۔ اکنامکس، فزکس، بیالوجی، سائیکالوجی اور سوشیالوجی کے فارمولے اور باتوں سے قطع نظر محض اس لئے بے کار ہیں کہ خود نسخہ لکھنے والوں کو بھی اکثر اجزاء کا کچھ حال سوائے اس کے معلوم نہیں کہ کسی نے کچھ اس کے متعلق