ج۱۴ ص۱۹۳) پر وہ لکھتے ہیں: ’’ممکن ہے کہ کئی لوگ میری ان باتوں پر ہنسیں گے یا مجھے پاگل اور دیوانہ قرار دیں گے کیونکہ یہ باتیں دنیا کی سمجھ سے بڑھ کر ہیں اور دنیا ان کو شناخت نہیں کرسکتی۔‘‘
مرزا کے قول پر مرزائی طبی بورڈ کافیصلہ اور پھر مرزا کی تحریروں سے اس امر کی تائید کہ اسے مراق کا عارضہ لاحق تھا۔ ایسی چیز ہے جس سے مرزائی امت انکار نہیں کرسکتی۔ پھر تعجب ہے کہ لوگ اس کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔
فتنہ قادیان
از مولانا ظفر علی خان صاحب
ملا یہ امتیاز اسلام ہی کو سارے دینوں میں
گدا اس کے نظر آتے بیٹھے شہ نشینوں میں
محمد کے غلام اسکندر وجم بن ہی جاتے ہیں
امانت کچھ اثر دکھلا ہی جاتی ہے امینوں میں
انگوٹھی ایک ہے اسلام کی ہم سب نگیںا س کے
رسول اﷲ کرلیں انتخاب اپنے نگینوں میں
حسیں ہے اور بھی لیکن جو میری آنکھ سے دیکھو
تو ہے اسلام کی صورت ہی پیاری سب حسینوں میں
جلال اسلام کا منظور ہو گردیکھنا تم کو
تو سجدوں کی تڑپ کو دیکھ لو آکر جبینوں میں
زمانہ نے ترقی علم وفن میں اس قدر کی ہے
کہ طے ہوتی ہے منزل آج برسوں کی مہینوں میں
مسلمان بھی نہ تھے ناآشنا اس رمز اکبر سے
کہ ہونی چاہئے تفسیر سینوں کی سفینوں میں
عرب نے سارے عالم میں بکھیرا ان جواہر کو
نہ ڈھونڈے سے بھی مل سکتے جو یونان کے دفینوں میں
وہ بت جن سے نہیں اڑتی ہے اپنی ناک کی مکھی
خدا کی شان وہ بھی ہیں خدا کے نکتہ چینوں میں
زبان پر دین کا غل اور سر میں کفر کا سودا
چھپائے جارہے ہیں آج کل بت آستینوں میں
کہاں پنجاب میں اسلام تیری اٹھ گئی غیرت
بٹھایا کفر کو لاکر نبی کے ہم نشینوں میں
تفو آئے گنبد گردوں گرداں! کیا قیامت ہے
کہ ہمسر شیر کی روباہ بنتی ہے عرینوں میں
کھلونا قادیاں کا بن گئی وہ سطوت کبریٰ
ہے اب تک شور جس کا آسمانوں اور زمینوں میں
حدیث اسمہ احمد غلام احمد پہ چسپاں ہو
پڑے خاک اس سلیقے پر لگے آگ ان قرینوں میں
مسلمانو! کچھ اس دجال اعظم کی خبر بھی ہے
ملایا جس نے آتے ہی سعیدوں کو لعینوں میں
گہر کی قدر ہو کس طرح کوئی جوہری بھی ہو
نہیں فرق اب رہا کچھ پتھروں اور آبگینوں میں
مثالب کا مجھے کیا ڈر مرا ایمان ہے قرآں پر
کہ حق تک عین سے پہنچا ہوں میں اپنے یقینوں میں
میرے اشعار ہیں یا گنبد گردوں کے تارے ہیں
نظر آتا ہے رنگ آسماں میری زمینوں میں