علامہؒ پاکستان کے نقاش اوّل ہیں۔ آپ نے آج سے پورے چودہ سال پیشتر اجنبی اقتدار اور فرنگی عہد حکومت میں ’’قادیانی جماعت ایک علیحدہ اقلیت ہے‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور ہندوستان کی انگریزی حکومت سے جو خود اس فتنہ کی بانی تھی مطالبہ کیا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے۔ آہ! کس قدر دردناک اور عبرت انگیز ہے یہ حقیقت! کہ آج جب کہ علامہؒ کے ذہن ودماغ کے نقوش صفحہ گیتی پر ابھر آئے۔ بفضلہ تعالیٰ پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ جمہور مسلمانوں کی اپنی حکومت بن گئی اور اس نے قرارداد مقاصد پاس کر کے اسلام کا کلمہ بھی پڑھ لیا۔ قادیانیت نہ صرف اسلامی رنگ وروپ میں باقی ہے۔ بلکہ جسد اسلام کا ناسور بنتی جارہی ہے۔ علامہؒ کی روح کس قدر مضطرب اور بیقرار ہو اگر اسے علم ہو جائے کہ علامہ کے نہاں خانۂ دماغ کا تصور وتخیل بعونہ تعالیٰ جب عملی شکل اختیار کر کے پاکستان بن گیا تو اس پاکستان کی پہلی مرکزی حکومت کا پہلا وزیر خارجہ اس دشمن ایمان اور غدار اسلام جماعت کا ایک فرد بنایا گیا۔ جس جماعت کو علامہ نے لاہور کے ایک تعلیمی ادارہ، انجمن حمایت اسلام، سے خارج کر کے انجمن کی تطہیر کی تھی اور اس وقت تک نہ تو چین لیا اور نہ کشمیر کمیٹی کی رکنیت قبول کی تھی جب تک اس کے صدر خلیفہ قادیان رہے۔ علامہؒ نے تب اطمینان کا سانس لیا جب کشمیر کمیٹی اس غیرمسلم عنصر سے پاک ہوگئی۔ کاش! کہ حکومت پاکستان اقبالؒ کی انجمن حمایت اسلام اور اقبال کی کشمیر کمیٹی کی طرف اقبال کی حکومت پاکستان کو اس غدار عنصر سے پاک کر کے اقبال کی روح کو بھی خوش کرتی۔ جس کی قبر کو پھولوں کی چادر سے ڈھانپا جارہا ہے اور جس کی یاد میں پاکستان کے طول وعرض میں یوم اقبال منایا جاتا ہے۔ اقبال سے پیار کرنا یوم اقبال منانا، اقبال کے فلسفہ حکومت علم اور فکر کی صحت وصداقت اور وسعت ورفعت پر فخر وناز کرنا مگر اقبالؒ کے مسلک ومذہب کو عملاً ٹھکرا دینا انصاف واخلاص کا کوئی اچھا مظاہرہ نہیں ہے۔ (مدیر)
’’میرے بیان مطبوعہ ۱۴؍مئی۱۹۳۵ء پر آپ نے تنقیدی اداریہ لکھا۔ اس کے لئے میں آپ کا ممنون ہوں جو سوال آپ نے اپنے مضمون میں اٹھایا ہے وہ فی الواقعہ بہت اہم ہے اور مجھے مسرت ہے کہ آپ نے اس سوال کی اہمیت کو محسوس کیا۔ میں نے اپنے بیان میں اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ قادیانیوں کی تفریق کی پالیسی کے پیش نظر جو انہوں نے مذہبی اور معاشرتی معاملات میں ایک نئی نبوت کا اعلان کر کے اختیار کی ہے۔ خود حکومت کا فرض ہے کہ وہ