امن وسکون سے بیٹھا تقریر سنتا رہا۔
مرزا محمود کوئٹہ میں ہی تھا۔ پولیس نے اسے کہا کہ بہتر ہے تم یہاں سے چلے جائو۔ مشتعل مسلمان تم پر برس پڑے تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ چنانچہ مرزا کو راتوں رات پولیس کے پہرہ میں وہاں سے نکلنا پڑا۔ اور مرزائی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ وہ مسلمان دندناتے رہے اور کسی کو ان پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی۔
۹… مرزائی افسروں نے چنیوٹ میں اچھے قسم کے پندرہ سو مکانات خالی کرانے کا حکم دیا تاکہ مرزائیوں کو آباد کیا جاسکے۔ حالانکہ مکان الاٹ ہوچکے تھے۔ لٹے پٹے مہاجرین بسیرا ڈال چکے تھے۔ گویا مرزائیوں نے اس شہر کو ایک مرزائی سٹیٹ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ میں چنیوٹ گیا۔ تقریر کے دوران عہد لیا کہ ہماری لاشیں تو نکالی جاسکتی ہیں۔ زندہ ان مکانوں سے ہم نہ نکلیں گے۔ اس طرح خداوند قدوس نے یہاں بھی مرزائیوں کو رسوا کیا۔
یہ ساری تفصیل مرزائیوں کے کردار کو سمجھنے کے لئے کافی ہے اور اس سے معلوم ہوجائے گا کہ مرزائی ملک میں کیا گل کھلانا چاہتے ہیں۔ مرزائیوں کی دسیسہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امیر شریعت مرحوم نے مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنا ڈالی تھی جس نے الحمدﷲ تعالیٰ بے سروسامانی کے عالم میں مختلف مواقع پر ملک کو مرزائی سازشوں سے بچایا ہے۔ مجلس نے پائی پائی جوڑ کر اب دفتر تعمیر کیا ہے۔ تاہم مرزائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے مادی اعتبار سے جو ضروریات ہیں وہ اب بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ محض حضور خاتم النّبیینﷺ کی ختم المرسلینی کا صدقہ ہے کہ اس بے سروسامان کے عالم میں بھی گاڑی چل رہی ہے۔
مولانا نے ملک کے ہر طبقہ سے اپیل کی کہ وہ اپنی اپنی جگہ ختم نبوت کے مبلغ بن جائیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر انشاء اﷲ مرزائیوں کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ آپ نے افسوس کا اظہار کیا کہ سرکاری افسر مرزائی نبوت کے مرکز ربوہ کے پاسبان بنے ہوئے ہیں۔ جس کے سبب وہاں کی پراسرار سرگرمیاں منظر عام پر نہیں آسکتیں۔ اگر ان سرکاری افسروں کو بھی تین سو تین کی طرح مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کی ملک دشمن سرگرمیوں کے پیش نظر برطرف کردیا جائے تو ربوہ کاوجود چند لمحے بھی باقی نہ رہ سکے گا۔
آپ نے تقریر کے آخر میں ایک بار پھر اپیل کی کہ ہر کہہ ومہہ کو ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں آجانا چاہئے۔ اس طرح ہم لوگ محمدی سرکار کی شفاعت کے مستحق بن جائیں گے۔