اس کے بعد فرمایا کہ میں ۱۹۴۲ء میں احرار کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے ملتان آیا تھا ان دنوں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی مرحوم جیل میں تھے۔ تقریر کے بعد دوستوں نے جیل میں مولانا سے درخواست کی۔ انہوں نے حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سے درخواست کی۔ اس طرح بزرگوں کے حکم سے مجھے ملتان میں قیام پذیر ہونا پڑا۔ مدرسہ بنایا اور وہیں کام شروع کردیااور جب ۱۹۴۷ء میں مدرسہ خیرالمدارس جالندھر سے ملتان آیا تو اپنا مدرسہ ختم کرکے اس میں مدغم کردیا۔ اس وقت سے اہل ملتان سے وعدہ کیا کہ کچھ بھی ہو، جمعہ ملتان میں ہی پڑھائوں گا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اگر جمعہ بھی وہاں نہ پڑھائوں تو پھر اہل ملتان بالکل محروم رہتے ہیں۔ یہ تو درست ہے کہ میں ملتان میں کوئی باضابطہ خطیب نہیں۔ نہ تنخواہ کا سلسلہ ہے۔ البتہ ایک وعدہ ہے۔ جس کا ایفاء کررہا ہوں۔
پھر یہ کہ تقسیم کے بعد شاہ جی مرحوم ملتان تشریف لائے۔ مرکزی دفتر بھی ملتان ہی قائم ہوا۔ اس لئے اس وعدہ کے ایفاء کے لئے مزید سامان پیدا ہوگئے۔ ۱۹۴۲ء سے لے کر اب تک سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے۔ دوران سفر کتنا ہی دور کیوں نہ ہوں۔ جمعہ کو ہرحال میں وہاں پہنچتاہوں۔ آپ لوگوں نے ایک دینی جذبہ کے تحت یہ مسجد بنائی۔ اسکی خوشی میں ۲۴سالہ روایت چھوڑ کر جمعہ کو یہاں چلا آیا۔ جب کہ احرار اور مجلس ختم نبوت کی کانفرنسوں میں بھی اصرار کے باوجود کبھی جمعہ نہیں دیا۔ بس اس مسجد کی خوشی اور آپ کی قربانی، شوق اور تڑپ کی قدر کرتے ہوئے حاضر ہوگیا ہوں۔ خدا اس حاضری کو قبول فرمائے اور آپ کی قربانی کو قبول فرما کر روز حشر اجر جزیل سے نوازے۔ (آمین) حقیقت یہ ہے کہ قیامت کے دن کچھ مل گیا تو بیڑا پار ہوجائے گا۔
جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو ماں بنا سنوار کر رخصت کرتی ہے۔ سمجھاکر بھیجتی ہے کہ بیٹی نیا گھر ہے۔ ہوش اور عقل سے رہنا ان ساری چیزوں کے باوجود اگر خاوند کو پسند نہ آئے تو کوئی فائدہ نہیں، خاوند کو پسند آگئی تو پھر سب ٹھیک ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کو کوئی عمل پسند آگیا تو بات بن جائے گی۔ ورنہ تباہی وبربادی ہے۔ (اعاذنا اﷲ تعالیٰ منہا)
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ پر مقدمہ چلا، حجاز میں گرفتار ہوئے، مالٹا میں اسیر ہوئے۔ (حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں کہ حضرت کو شیخ الہند کہنے والے ان سے انصاف نہیں کرتے۔ ان کا اصل نام شیخ العرب والعجم ہے۔) انگریزی حکومت سزائے موت کا